ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
اور التذاذ / 1 ہی کا وقت ہوتا ہے لیکن اس وقت بھی اکثر اوقات کوئی نہ کوئی کلفت پیش آجاتی ہے - کہ وہ کلفت التذاذ میں سدراہ ہوجاتی ہے - مثلا روٹی کا ٹکڑا گلے میں اٹک گیا - کھانا کھانے بیٹھے کسی عزیز کے مرنے کی خبر آگئی یا اور فکر میں ڈالنے والی کوئی بات سن لی کہ سب کھانا پکا پکایا بے لفط ہوگیا یا یہ کہ وہ کھانا ہضم نہیں قبض ہوگیا - یا دست آنے لگے - سلاطین وامراء کے عیش سے زیادہ کسی کا عیش نہیں ہے لیکن ان کو سب سے زیادہ پریشانیاں ہیں اولاد کو دیکھ لیجئے کہ بڑی بڑی تمناؤں کے بعد پیدا ہوتی ہے - انواع انواع کی تکالیف اٹھا کر ان کی پروش کرتے ہیں پھر اکثر اولاد خلاف مزاج ہوتی ہے - والدین کو سینکڑوں طرح کی ان سے تکالیف پہنچتی ہیں غرض دنیا کی جس منفعت کو دیکھو گے خالص نظر نہ آوے گی اور اپنے مقصد کے موافق نہ ہوگی - حق تعالیٰ خود فرماتے ہیں ام للانسان ما تمنی فللہ الاخرۃ والاولیٰ کیا انسان کے لئے جو جو تمنا کرے وہ حاصل ہوتی ہے ( یعنی نہیں ) پس آخرت اور دنیا سب اللہ کے اختیار میں ہے - لیکن اس پر کوئی شبہ نہ کرے کہ للہ الآخرۃ والاولیٰ سے تو یہ معلوم ہوا کہ جیسے دنیا ہمارے اختیار میں نہیں ہے - اسی طرح آخرت بھی نہیں ہے پھر فرق کیا ہوا بلکہ نہ وہ قابل تحصیل ہوئی نہ یہ ہوئی تو جو اس تقریر سے تمہارا مقصود ہے کہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی رغبت دلانا وہ حاصل نہ ہوا جواب یہ ہے کہ دوسرے مقام پر حق تعالیٰ فرماتے ہیں - من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا مانشاء لمن نرید ثم جعلنا لہ جھنم یصلاھا مذموما مدحورا و من اراد الآخرۃ وسعیٰ لھا سعیھا وھو من مون فاولٰئک کان سعیھم مشکورا یعنی جو شخص صرف دنیا طلب کرے تو دنیا میں جو ہم چاہیں گے جس کو چاہیں گے وہ دیں گے - پھر اس کے لئے ہم جہنم تجویز کریں گے - اس میں داخل ہوگا اس حالت میں کہ مذموم و مردود ہو گا - اور جو شخص آخرت چاہئے گا اور اس کے لئے پوری سعی کرے اور وہ مومن بھی ہو - پس ان لوگوں کی سعی کی قدر کی جاوے گی - دیکھئے دنیا کی نسبت تو یہ فرمایا کہ ہم جس کو چاہیں گے اور جتنی چاہیں گے دیں گے - اور آخرت کی نسبت فرمایا کہ جو اس کے لئے سعی کرے گا اس ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 مزا حاصل کرنے کا