ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
نکند و ہر درویشے کہ چون و چرا کند ہر دورادر چراگاہ باید فرید فرست ۔ وجہ یہ ہے کہ طالب علم تعلیم کے وقت طلب فن میں ہے اور حصول فن کے لئے لازمی ہے کہ سوالات کرے اور قیل و قال سے مسئلہ کی تہہ تک پہنچے اور سالک سلوک طے کرتے وقت عمل میں مشغول ہے اس کے لئے جرح و قدح (1) موجب حرماں اور سبب ہلاکت ہے اس کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے کہ ایک حکیم کے مطب میں کچھ مریض بھی علاج کرانے کو آئیں اور کچھ لوگ طلب فن کے لئے درسیات طب پڑھنے بھی آئیں ۔ پس اگر ان طالبین فن میں سے کوئی شخص درس کے وقت بالکل خاموش بیٹھا رہے اور کسی قسم کا سوال نہ کرے تو وہ طبیب اس کو نالائق کہہ کر درس سے اٹھاوے گا ۔ لیکن کوئی مریض نسخہ لکھواتے وقت کسی قسم کا کا چون و چرا کرے اور ادویہ یا ان کے اوزان کی حکمت دریافت کرنے لگے تو اس کے ساتھ بھی وہی (2) برتاؤ ہو گا ۔ غرض طالب علم کا گڑبڑ کرنا اور حکمت و مصلحت دریافت کرنا اچھا معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ بے موقع نہیں اور عوام کا چون و چرا کرنا برا معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ بے موقع ہے لیکن یہ مرض کچھ ایسا عام ہوا ہے کہ ہر شخص احکام کی حکمتیں دریافت کرنے کے درپے ہے ۔ اور اپنے کو حکمتیں سمجھنے کے قابل سمجھتا ہے ۔ حکایت : ایک شخص نے جو کہ پٹواری گری کرتے تھے ۔ میرے پاس ایک مسئلہ فرائض کا بھیجا ۔ صورت مسئلہ یہ تھی کہ ایک شخص مرا اور اس نے ایک بھتیجا اور ایک بھتیجی چھوڑی میں نے جواب دیا کہ بھتیجے کو حصہ پہنچے گا اور بھتیجی محروم ہو گی ۔ کہنے لگے کہ آخر اس کی کیا وجہ بھتیجی بھی تو اس بھتیجے کی بہن ہے اس کو کیوں نہیں ملے گا ۔ میں نے کہا کہ جناب آپ پٹواری گری کرتے ہیں اس کو چھوڑیئے اور آ کر درسیات شروع کیجئے تین چار برس تک عربی کی کتابیں پڑھیئے اس کے بعد پھر دریافت کیجئے تو بتلا دیں گے ۔ راز اس میں وہی ہے کہ طالب علم طالب فن ہوتا ہے اور عوام محض عمل کے لئے مسئلہ دریافت کرتے ہیں ۔ ان کو اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں کہ حکم مسئلہ کا معلوم ہو جاوے و بس ۔ دوسرے ایک راز (3) اس میں ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) محرومی کا ذریعہ (2) نکال دے گا (3) دوسری بات یہ بھی ہے کہ بہت سی مصلحتیں علوم اور اصلاحات سے سمجھ میں آ سکتی ہیں اور عام آدمی ان سے خالی ہوتا اور اگر وہ تمام ضروری علمی و اصلاحی باتیں بھی بیان کر دی جائیں تو وہ ایک دم سے نہ ذہن میں آ سکتی ہیں نہ جم سکتی ہیں وہ تو رفتہ رفتہ علوم حاصل کرنے سے ہی حاصل ہوتی اور جم جاتی ہیں ۔