ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
رجوع نہیں کرتے بالخصوص اگر کشف قبور بھی ہونے لگے کہ اس صورت میں تو اپنے کمال میں شبہ بھی نہیں رہتا کیونکہ کشف قبور کے لئے نسبت فنا کا حاصل ہونا ضروری ہے تو جب صاحب نسبت بھی ہو گئے تو پھر کیا کسر رہی حالانکہ کشف قبور کوئی کمال نہیں ہے نہ مطلق نسبت کا حصول دلیل کمال ہے ۔ کشف قبور کے نسبت فنا پر موقوف ہونے پر مجھے ایک حکایت یاد آئی کہ ۔ حکایت : ایک بزرگ سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ قبور سے فیض ہوتا ہے یا نہیں فرمایا کہ فیض لینے والا کون ہے اس شخص نے کہا مثلا میں ہوں فرمایا کہ نہیں ہوتا ۔ اللہ اکبر کتنا بڑا مسئلہ اور کس طرح دو جملوں میں حل کر دیا ۔ یہ بات اہل علم کے یاد رکھنے کی ہے کہ ان کو جواب میں سائل کے تابع ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ وہ جس طرز سے جواب چاہیں اس کو ضروری سمجھا جاوے ۔ بلکہ ان کی مصلحت پر نظر کرنی چاہیے اور جو طرز جواب کا ان کے لئے مصلحت ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے ۔ گو وہ ان کی رائے کے خلاف ہو یہ ضروری نہیں کہ جس راہ سائل لے چلے اسی راہ چلیں جس طرح اس حکایت میں سائل نے تو چاہا کہ پوری تحقیق مسئلے کی بیان کی جائے اور محقق مجیب نے اس کو بیمار سمجھ کر اس کی حالت کے مناسب جواب دے دیا کہ تم پورے مسئلے کو کیا کرو گے اپنا تعلق مسئلے سے جس قدر ہے اس کو سمجھ لو کہ تم کو قبور سے نفع نہیں ہو سکتا ۔ سائلین تو یہ چاہتے ہیں کہ جس راہ پر ہم چلیں اس راہ پر اگر چلیں تو ہم جانیں گے کہ ہمارے سوال کا جواب ہو اور نہ سمجھیں گے کہ جواب نہیں ہوا ۔ مجیبوں نے جب دیکھا کہ ان کی یہ حالت ہے جس چال انہوں نے چلایا اسی چال انہوں نے چلنا اختیار کیا ۔ اس میں بڑی خرابی یہ ہوئی کہ سائلین کے امراض میں ترقی ہوتی گئی اور شبہات ترقی پذیر ہوتے گئے ۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے طبیب کے پاس کوئی مریض جائے کہ اس کو مرض دق بھی ہو اور زکام بھی ہو اور جا کر حکیم سے فرمائش کرے کہ اول زکام کا علاج کر دیجئے تو اگر طبیب زکام کے علاج میں ایک مدت مدید صرف کرے تو وہ خائن ہے اس کو چاہیے کہ مریض کو رائے دے کہ ہر گز ایسا نہ کرو ۔ اول دق کی خبر لو ۔ اگر مریض اس تجویز پر یہ کہے کہ حکیم صاحب کچھ نہیں جانتے تو طبیب اس وقت کیا کرے گا ظاہر ہے کہ اس کے جہل پر رحم کرے گا اور پھر