ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کچھ اعتبار نہیں ہے ۔ اسی وقت چل کر قبضہ کر لینا چاہیے ۔ کہا بھائی ابھی چل کر دے دو ۔ چنانچہ وہ گوجر ساتھ ہو لیا ۔ راستے میں اتفاق سے کسی ڈول سے پیر صاحب کا پیر پھسل گیا اور گر گئے گرنے کے ساتھ ہی اس گوجر نے ایک لات رسید کی اور کہا کہ تو جب اتنی چوڑی منڈیر پر نہیں چل سکا تو پل صراط پر کس طرح چلے گا ۔ تو جھوٹا ہے جا ہم تجھے اپنا کھیت نہیں دیتے ۔ تو صاحبو ! سچ بات یہی ہے کہ کام اپنے ہی کئے سے ہوتا ہے کسی دوسرے کے کئے کوئی کام نہیں ہوتا اور میں کہتا ہوں کہ اگر دوسرے کے کرنے سے کام ہو جاتا ہے اور اپنے کرنے کی ضرورت نہیں رہتی تو اس کی کیا وجہ کہ یہ قاعدہ دین ہی کے کاموں میں برتا جائے ، دنیا کے کاموں سے بھی کیوں ہاتھ نہیں اٹھا لیا جاتا اور ان کو بھی کیوں پیر صاحب کے بھروسے پر نہیں چھوڑ دیا جاتا ۔ بس نہ کھاؤ نہ پیو نہ کھیتی کرو ۔ سب کام تمہاری طرف سے پیر ہی کر لیا کریں گے ۔ ان ہی کے کھانے سے تمہارا پیٹ بھر جائے گا ان ہی کے پینے سے تمہیں تسکین ہو جائے گی افسوس ان کاموں میں تو اس قاعدے پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ اپنے کرنے کو ضروری سمجھا گیا اور دین کے کام کو اس قدر سستا اور بے وقعت سمجھا گیا کہ اس میں اس قسم کے قاعدے برتے گئے ۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔ اودھ میں ایک پیر تھے کہ وہ نماز نہیں پڑھا کرتے تھے ان کے مرید کہا کرتے تھے کہ وہ مکہ جا کر نماز پڑھتے ہیں ۔ میرے ایک دوست نے سن کر کہا کہ صاحب اس کی کیا وجہ کہ نماز کے لئے تو مکہ کو اختیار کیا جائے اور کھانے ہگنے کے لئے ہندوستان کو ، اگر نماز وہاں پڑھی جاتی ہے تو کھانا ہگنا بھی وہیں ہونا چاہیے ۔ اور اگر یہ ہندوستان میں ہوتا ہے تو نماز بھی ہندوستان میں ہونی چاہیے کیونکہ ہندوستان بم پولیس نہیں ہے اور اپنے اس قاعدے میں کہ سب پیر ہی کر لیں گے ۔ غور کر کے دیکھو اس کا حاصل تو یہ ہے کہ گویا پیر تمھارے کمیں ہیں کہ گناہ تم کرو اور پیر اس کو اٹھائیں ۔ یاد رکھو کہ پیر صرف راستہ بتلانے کے لئے ہیں ۔ کام کرنے کے لئے نہیں کام تم کو خود کرنا چاہیے ۔