الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
زبردست نخوت وتکبر کی وجہ سے عورت کو انڈے اور بکری سے کنایہ کرتے تھے، اور کنایہ کی انوکھی مثالوں میں، کسی عربی کا یہ قول ہے۔ أَلَایَا نَخْلَةً مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ عَلَیْكِ وَرَحْمَةُ اللہهِ السَّلَامُ ترجمہ:- سنو! اے ذات عرق میں مدفون کھجور کے درخت (محبوبہ) تجھ پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو۔ چنانچہ شاعر نے نخلہ (کھجور کے درخت) کو اپنی محبوبہ سے کنایہ کیا ہے۔ اور شاید اتنی مقدار کافی ہے کنایہ کی خصوصیتوں کو بیان کرنے اور کنایہ جس بلاغت اور حسن وجمال کو متضمن ہے اس کے اظہار کے لئے۔أثر علم البیان فی تادیۃ المعانی علم بیان کے پڑھنے سے آپ کے سامنے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ ایک ہی مفہوم کو متعدد اسلوبوں اور مختلف طریقوں سے ادا کیا جاسکتا ہے، اور یہ کہ ایک ہی معنی کو تشبیہ، یا استعارہ، یا مجاز مرسل، یا مجازعقلی یا کنایہ کی عمدہ صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ایک شاعر انسان کی سخاوت کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ یُرِیْدُ الْمُلُوْكُ مَدَی جَعْفَرٍ وَلَایَصْنَعُوْنَ کَمَا یَصْنَعُ وَلَیْسَ بِأَوْسِعِہهِمْ فِی الْغِنٰی وَلٰکِنْ مَعْرُوْفُہهُ أَوْسَعُ ترجمہ:- بہت سے بادشاہ ممدوح جعفر کے مرتبہ پر پہنچنا چاہتے ہیں، اور وہ ممدوح کی طرح سخاوت نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ ممدوح بادشاہوں سے زیادہ مالدار نہیں ہے، لیکن ممدوح کا احسان بہت وسیع ہے۔ یہ بہت ہی بلیغ کلام ہے حالانکہ اس میں تشبیہ یا مجاز استعمال نہیں ہوا ہے، کیونکہ شاعر اپنے ممدوح کی سخاوت کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دوسرے بادشاہ اس کے مرتبہ تک پہنچنا چاہتے ہیں، لیکن وہ مال سے تعریف کو نہیں خریدتے ہیں ممدوح کی طرح، حالانکہ ممدوح ان سے زیادہ مالدار وتونگر نہیں ہے۔ اور کبھی شاعر سخاوت کو ایک دوسرے اسلوب سے بیان کرتا ہے، پس متنبی شاعر کہتا ہے؎