الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۴) ابو العتاھیہ کا شعر ہے ؎ یَا صَاحِبَ الدُّنْیَا الْمُحِبَّ لَھهَا أَنْتَ الَّذِيْ لَایَنْقَضِيْ تَعَبُهُ ترجمہ:- اے دنیادار! دنیا سے محبت کرنے والے، تو ہی ہے وہ جسکی تھکان ختم نہیں ہوتی ہے۔ (۵) ایک دوسرے شاعر کا شعر ہے ؎ وَإِنَّمَا الْمَرْءُ بِأَصْغَرَیْہهِ کُلُّ امْرِیٍٔ رَهْھنٌ بِمَا لَدَیْہهِ ترجمہ:- اور آدمی اپنی بہت چھوٹی دو چیزوں(دل اور زبان) کی بدولت (انسان) ہے، ہر آدمی مرہون ہے اس چیز کا جو اسکے پاس ہے، (یعنی ہر ایک کو اپنے عمل کا بدلہ ملے گا)۔ (۶) ابوتمام کا شعر ہے ؎ لَیْسَ الْحِجَابُ بِمُقْصٍ عَنْكَ لِيْ أَمَلاً إِنَّ السَّمَاء َتُرَجّٰی حِیْنَ تَحْتَجِبُ ترجمہ:- آپ کا پردہ کرنا یہ آپ سے میری امیدوں کو ختم کرنے والا نہیں ہے، بیشک آسمان سے اسی وقت امید بندھتی ہے جب وہ چھپ جاتا ہے (یعنی اسپر بدلیاں چھا جاتی ہیں)۔البحث (مثالوں کی وضاحت) علماء معانی کلمہ وصل سے ایک جملہ کا دوسرے جملے پر واؤ کے ذریعہ عطف کرنا مراد لیتے ہیں، جیسے ابیوردی شاعر کا قول جو زمانے سے خطاب کررہا ہے ؎ فَالْعَبْدُ رَیَّانُ مِنْ نُعْمٰی تَجُودُ ِبِهَھا وَالْحَرُّ مُلْتَھهِبُ الْأَحْشَاءِ مِنْ ظَمَاءٍ ترجمہ:- غلام ان نعمتوں سے سیراب ہے جن کے ذریعہ (اے زمانہ!) تو سخاوت کرتا ہے، اور آزاد آدمی کی انتڑیاں پیاس سے شعلہ زن ہیں۔ اور علماء معانی فصل سے اس عطف کے ترک کو مراد لیتے ہیں، جیسے معری کا شعر ہے ؎ لَاتَطْلُبَنَّ بِآٓلَةٍۃ لَكَ حَاجَةً قَلَمُ الْبَلِیْغ ِبِغَیْرِ حَظٍّ مِغْزَلُ ترجمہ:- تو ہرگز اپنی ضرورت کسی آلہ سے نہ طلب کر، اور بغیر تحریر کے بلیغ کا قلم تکلہ ہے، اسکو سمجھ لو ـــــــــــــ اور فصل اور وصل میں سے ہر ایک کے لئے کچھ مواقع ہیں، ضرورت جسکی طرف داعی ہوتی