الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
دوسرے شعر میں ابن الرومی کا یہ خیال ہے کہ غروب ہونے کی طرف مائل ہوتے وقت آفتاب اس کائناتی سبب کی وجہ سے زرد نہیں ہوا ہے جو ماہرین فلکیات کے نزدیک معروف ہے، لیکن وہ ممدوح کے چہرے سے جدائی کے اندیشہ سے زرد پڑگیا ہے۔ تیسرے شعر میں شاعر مصر میں بارش کی کمی کے فطری اسباب کا انکار کرتا ہے، اور اسکے لئے وہ دوسرا سبب ڈھونڈ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ بارش ایسی زمین پر برسنے سے شرما رہی ہے جس زمین میں ممدوح کی سخاوت اور اسکا فضل عام ہے، اسلئے کہ وہ جو دو عطاء میں ممدوح سے مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔ پس آپ گذشتہ تمام مثالوں میں دیکھ رہے ہیں کہ شاعر شیٔ کے معروف سبب کا انکار کرکے ایسی علت کا سہارا لے رہا ہے جسکو اس نے خود گھڑا ہے، اس علت کے اس غرض کے مناسب ہونے کی وجہ سے جسکا اس نے قصد کیا ہے، اور کلام کے اس اسلوب کا نام ’’حسن تعلیل‘‘ ہے۔القاعدہ (قاعدہ) (۷۴) حسن تعلیل یہ ہے کہ ادیب صراحۃ یا ضمنا کسی شیٔ کی معروف علت کا انکار کرے، اور ایسی انوکھی ادبی علت لاوےجو اسکی غرض کے مناسب ہو جسکا وہ قصد کررہا ہے۔التمرین - ۱ آنے والے اشعار میں حسنِ تعلیل کو واضح کریں۔ (۱) ابن نباتہ کا شعر ہے ؎ اسکی سخاوت مال پر مسلسل ظلم کرتی رہی، یہاں تک کہ اس نے سونے کو زردی کا لباس پہنادیا۔ (۲) شاعر نے کہا ہے کسی کی مدح میں اور مصر میں پیش آئے زلزلے کی علت بیان کرتے ہوئے ؎ مصر میں زلزلہ اس برے مکر کی وجہ سے نہیں آیا جو مصر کے ساتھ چاہا گیا، لیکن یہ تو ممدوح کے عدل پر مستی میں جھوم رہی ہے۔ (۳) میں آسمان کے چاند کو دیکھتا ہوں کہ وہ کبھی ظاہر ہوتا ہے اور نظر آتا ہے پھر وہ بادل میں (لپٹ کر) چھپ جاتا ہے، اور اسکی وجہ یہ ہے کہ جب وہ ظاہر ہوکر آپ کے چہرے کو دیکھتا ہے تو شرماکر غائب ہوجاتا ہے۔