الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۶) اللہ تعالی کا ارشاد ہے، حضرت موسیؑ کی حضرت شعیب ؑ کی دوبیٹیوں کے ساتھ حكایت کرتے ہوئے، فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ فَجَاءتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاء قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا(قصص ۲۵ - ۲۴) تو موسیؑ نے ان دونوں کی بکریوں کو پانی پلایا، پھر مڑکر سایہ کی طرف چلے گئے، اور کہا کہ اے میرے رب! بیشک میں اس خیر کا محتاج ہوں جو تو میری طرف بھیجے، پس ان دو میں سے ایک شرماتی ہوئی چل کر موسیؑ کے پاس آئی اور کہا کہ میرے اباآپ کو بلارہے ہیں تاکہ آپ کو اس کا بدلہ دے جو آپ نے ہمارے لئے بکریوں کو پانی پلایا ہے۔البحث (مثالوں کی وضاحت) آپ پہلے حصہ کی مثالوں میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر مثال الفاظ کم ہونے کے باوجود بہت سارے معانی کو جامع هے ، ـــــــــــــ پس پہلی مثال دو کلموں کو شامل ہے جس نے تمام چیزوں اور امور کو پورے طور پر گھیر لیا ہے حتی کہ مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس آیت کو پڑھاتو فرمایا جسکے لئے کوئی چیز باقی رہ گئی ہوتو وہ اسکو طلب کرلے، ـــــــــــــ اور دوسری مثال حسن وبلاغت کا نمونہ ہے، کیونکہ یہ سفر کے آداب اور کمزور پر مہربانی کو اسطرح جامع ہے کہ جسکی تعبیر کسی ادیب وبلیغ کے لئے بغیر لمبا کلام لائے آسان نہیں ہے، ـــــــــــــ یہی حال تیسری مثال کا ہے، اس انداز پر کلام کو لانے کا نام ’’ایجاز‘‘ ہے ـــــــــــــ اور جب کہ ایجاز کا مدار تھوڑے الفاظ کے بہت سارے معانی اور بہت سارے مقاصد کو وسیع ہونے پر ہے نہ کہ کچھ الفاظ اور جملوں کے حذف پر ہے، تو اسکا نام’’ ایجازِ قصر ‘‘ہوگا۔ اب دوسرے حصہ کی مثالوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان میں بھی ایجاز ہے، اور اگر ان مثالوں میں آپ ایجاز کا راز جاننا چاہتے ہیں تو پہلی مثال دیکھیں، اس میں ایک کلمہ حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ کلام کی تقدیر عبارت یہ ہے ’’وَجَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ‘‘ ـــــــــــــ اور دوسری مثال کو دیکھیں ، اس میں جواب قسم کا جملہ حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ کلام کی تقدیر عبارت ہے ’’ق وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ لَتُبْعَثُنَّ‘‘ ـــــــــــــ اور تیسری مثال میں چند جملے حذف کردئے گئے ہیں، بغیر حذف کے کلام کی ترتیب یہ ہے ’’فَذَهَھبَتَا إِلٰی أَبِیْهِھمَا وَقَصَّتَا عَلَیْہهِ مَاکَانَ مِنْ أَمْرِ مُوْسٰی، فَأَرْسَلَ إِلَیْہهِ، فَجَاءَتْہهُ إِحْدٰهُھمَا تَمْشِی عَلَی اسْتِحْیَاءٍ‘‘ ـــــــــــــ اور جب ان مثالوں میں ایجاز کا سبب حذف ہے تو اسکا نام ’’ ایجازِ حذف‘‘ ہوگا، اور ایجاز کی اس قسم میں شرط ہے کہ محذوف پر کوئی دلیل ہو، ورنہ تو حذف بے کار اور کلام غیر مقبول ہوجائے گا۔