الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۸) ’’لا‘‘ اور ’’کُفیت‘‘ ان دو جملوں میں وصل کیا گیاهے، کیونکہ دونوں خبر اور انشاء میں مختلف ہیں، اور فصل میں خلافِ مقصود کا وہم بھی ہے، پس ان دونوں میں ایہام کے ساتھ کمالِ انقطاع ہے۔ (۹) ’’أَمَدَّكُم بِمَا تَعْلَمُونَ ‘‘ اور ’’أَمَدَّكُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ وَجَنّٰتٍ وَعُیُوْنٍ‘‘ ان دو جملوں کے درمیان کمالِ اتصال ہے، اسلئے کہ ان میں دوسرا جملہ پہلے جملے کے بعض سے بدل واقع ہے، کیونکہ ’’أَنعام، بنون، جنات، عیون‘‘ یہ پہلے جملے میں ’’ماتعلمون‘‘ کا بعض ہیں۔ (۱۰) ابوالعتاهھیہه نے دو جملوں کے درمیان وصل کیا ہے، کیونکہ دونوں جملے خبر میں متفق ہیں، اور ان کے درمیان مناسبت تامہ بھی ہے، اور فصل کا متقاضی سبب بھی نہیں ہے۔ (۱۱) اسی طرح غزی شاعر نے بھی شعر کے دو مصرعوں میں وصل کیا ہے، وجہ وہی ہے جو ابھی اوپر گذری۔ (۱۲) ابو العلاء نے شعر کے دو مصرعوں میں فصل کیا ہے، کیونکہ دونوں میں کمالِ انقطاع ہے، اسلئے کہ دونوں جملے خبر اور انشاء میں مختلف ہیں۔ (۱۳) ’’یَقُوْلُوْنَ إِنِّیْ اَحْمِلُ الضَّیْمَ‘‘ اور ’’اَعُوْذُ بِرَبِّی أَنْ یُضَامَ نَظِیْرِی‘‘ ان دوجملوں میں شبہِ کمالِ اتصال ہے، کیونکہ دوسرا جملہ پہلے جملے سے پیدا ہونے والے سوال کا جواب ہے، گویا شعر کا پہلا مصرعہ کہنے کے بعد شاعر نے محسوس کیا کہ کوئی اس سے پوچھ رہا ہے کہ کیا لوگ اسکو یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ تو ظلم برداشت کرتاہے یہ صحیح ہے تو اس نے دوسرے مصرعہ سے جواب دیا۔ (۱۴) ’’يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ اور يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ ان دو جملوں میں کمالِ اتصال ہے، اسلئے کہ ان میں دوسرا جملہ پہلے جملے کے بعض سے بدل واقع ہے۔ (۱۵) آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے دو جملوں کے درمیان فصل کیا ہے، اسلئے کہ ان میں کمالِ اتصال ہے کیونکہ دوسرا جملہ پہلے جملہ کا بیان واقع ہورہا ہے۔التمرین - ۱ آنے والی مثالوں میں وصل کے مقامات بیان کریں، اور ہر مثال میں سبب بھی واضح کریں۔ (۱) کسی حکیم کا قول ہے ’’غلام آزاد ہے جب وہ قناعت کرے، اور آزاد غلام ہے جب وہ لالچ کرے‘‘۔ (۲) ابن الرومی کا شعر ہے ؎