الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
وَمَن یَّكُ ذَافَمٍ مُرٍّ مَرِیْضٍ یَجِدْ مُرًّابِہه المَاءَ الزُّلَالَا ترجمہ:- جو شخص کڑوے منہ والا مریض ہوتا ہے، تو وہ اس کی وجہ سے میٹھا پانی بھی کڑوا محسوس کرتا ہے (یہ اس شخص کے لئے ہے جو عمدہ شعر سمجھنے کا ذوق نہ رکھتا ہو)۔ (۳) قَطَعَتْ جَھهِیْزَۃةُ قَوْلَ کُلِّ خَطِیْبٍ ــــــــــــــ جہیزہ نے هر کہنے والے کی بات کاٹ دی (یہ فیصلہ کن بات پیش کرنے والے کے لئے ہے)۔البحث (مثالوں کی وضاحت) جب کوئی کام کرنے والا آدمی اپنے وطن واپس لوٹتا ہے تو حقیقی تلوار اپنے میان میں نہیں لوٹتی ہے اور نہ کوئی حقیقی شیراپنی کچھارمیں اترتاہے، تو یہ دونوں ترکیبیں حقیقی معنی میں مستعمل نہیں ہیں، بلکہ مجازًا استعمال ہے، اور قرینہ حالیہ ہے جو سیاق وسباق سے سمجھا جارہا ہے، اور علاقہ مشابہت کا ہے، اس لئے کہ اس آدمی کی حالت کو جو اپنے وطن سے محنت ومشقت سے کام کے لئے نکلا ہو پھر لمبی محنت ومشقت کے بعد واپس وطن لوٹا ہو، اس کو تشبیہ دی اس تلوار کی حالت کے ساتھ جو جنگ وجدال کے لئے نیام سے باہر نکالی گئی ہو، پھر کامیابی ملنے کے بعد وہ اپنی نیام میں واپس آگئی ہو، اسی طرح ’’حَلَّ اللَّیْثُ مَنِیْعَ غَابِہهِ ‘‘ بھی حقیقی معنی میں مستعمل نہیں ہے بلکہ مجازی معنی میں ہے علاقہ مشابہت کا ہے اور قرینہ حالیہ ہے پہلے کی طرح۔ اور متنبی کے شعر کا مفہوم یہ ہے کہ وہ مریض جس کے منہ کا ذائقہ کڑوا ہوتو وہ میٹھا پانی بھی کڑوا محسوس کرے گا، لیکن متنبی نے اس کا حقیقی مفہوم یہاں مراد نہیں لیا ہے، بلکہ اس نے یہ شعر ان لوگوں کے لئے استعمال کیا ہے جو اپنے شعری ذوق میں خرابی اور ادبی فہم کی کمزوری کی وجہ سے اس کے شعر پر عیب لگاتے ہیں، تو یہ ترکیب بھی مجازی ہے، علاقہ مشابہت کا ہے اور قرینہ حالیہ ہے، گویا شعر میں عیب لگانے والوں کو تشبیہ دے رہا ہے اس مریض کی حالت سے جو منہ کی کڑواہٹ کی وجہ سے میٹھے پانی کو بھی کڑوا محسوس کرتا ہے، تو شعر میں عیب لگانے والے مشبہ، اور مریض مشبہ بہ ہوا، اور قرینہ حالیہ ہے۔ اور تیسری مثال ایک عربی کہاوت ہے، جس کی حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگ دو قبیلوں کے درمیان صلح کے لئے اکٹھا ہوئے، ان میں ایک قبیلہ کے آدمی نے دوسرے قبیلہ کے آدمی کو قتل کردیا تھا، اس کے مشورہ کے لئے لوگ