الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۳) حرف ندا ’’ایا‘‘ اصل کے خلاف ندائے قریب میں استعمال ہوا ہے، منادی کی غفلت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے۔ (۴) حرف ندا ’’یا‘‘ اصل کے خلاف ندائے قریب میں استعمال ہوا ہے، یہ اشارہ کرنے کے لئے کہ منادی غافل اور لاپرواہ ہے گویا وہ قریب نہیں ہے۔ (۵) حرف ندا ’’ہمزہ‘‘ سے اصل کے خلاف بعید کو ندا دی گئی ہے، یہ اشارہ کرنے کے لئے کہ منادی ذھن میں حاضر ہے، دل ودماغ سے غائب نہیں ہے تو گویا جسم کے ساتھ حاضر ہے۔التمرین - ۱ آنے والی مثالوں میں حروفِ ندا بیان کریں، اور ان میں سے جو ندائے قریب وندائے بعید میں اپنی اصل وضع پر استعمال ہوئے ہیں اور جو اپنی اصل وضع سے نکل گئے ہیں، ان کو بیان کریں، اور اصل وضع سے نکل جانے کا سبب بلاغت بھی واضح کریں۔ (۱) ابوطیب متنبی کا شعر ہے ؎ اے بڑے لشکر کو شکار کرنے والے! جسکی ہر جانب خوف کیا جاتا ہے، بیشک شیر تو لوگوں کو ایک ایک کرکے شکار کرتے ہیں۔ (۲) اے میرے رب! تو نے میرے انجام کو بھی اچھا کیا اور آغاز کو بھی، لیکن تیرے احسان کا شکر ادا نہیں ہوسکا۔ (۳) اے نعمان اراک وادی کے رہنے والو! یقین جانو کہ تم میرے دل کی بستی میں رہتے ہو۔ (۴) اللہ تعالی کا ارشاد ہے موسیٰ علیہ السلام سے فرعون کے قول کی حکایت کرتے ہوئے ـــــــــــ اے موسی! بیشک میں تجھے سحرزدہ گمان کرتا ہوں۔ (۵) ابو العتاھیہ شاعر کا شعر ہے ؎ اے وہ شخص! جو لمبی زندگی کی امید رکھتا ہے، حالانکہ لمبی زندگی اسکے لئے خطرہ ہے۔ جب تو بوڑھا ہوجائے گا اور جوانی چلی جائے گی، تو بڑھاپے کے بعد زندگی میں کوئی خیر نہیں ہے۔ (۶) ابوطیب متنبی نے کافور کی مدح میں اسکے سامنے ایک قصیدہ پڑھا تھا جسکا ایک شعر ہے ؎