الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
وَمَا الدُّنْیَا سِوَی حُلْمٍ لَذِیْذٍ تُنِبِّھهُہهُ تَبَاشِیْرُ الصَّبَاحِ ترجمہ:- دنیا تو ایک لذیذ خواب کے سوا کچھ نہیں ہے، جسکو صبح کی ابتدائی علامتیں بیدار کرتی ہیں، اور بدفالی لینے والا کہتا ہے ؎ هَھلِ الدَّهْرُ إِلَّا لَیْلَةٌ طَالَ سُهْدُهَھا تَنَفَّسُ عَنْ یَوْمٍ أَحَمَّ عَصِیْبِ ترجمہ:- زمانہ محض ایک رات ہے جسکی بیداری (بے خوابی) لمبی ہے، وہ گرم ترین اور سخت دن سے دور ہوتی ہے۔ اور قصر کے مقاصد میں ایک مقصد تعریض ہے، جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــــــ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُو الْأَلْبَابِ (رعد ۱۹) ــــــــــــعقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں، ــــــــــــ اسلئے کہ آیت کریمہ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ سامعین اسکا ظاہری معنی جان لیں، لیکن یہ مشرکین سے تعریض ہے، اور یہ کہ وہ اپنی سرکشی کی زیادتی اور ان پر خواہش نفسانی کے غلبہ کی وجہ سے ان لوگوں کے حکم میں ہیں جن کو عقل نہیں ہے۔ اور علم ِمعانی آپ کی یہ بھی رہبری کرتا ہے، کہ فصل کی بعض قسموں میں اسکی غرض سامع کے ذھن میں معنی کو ثابت کرنا اور اسکو پختہ کرنا ہے، جیسے کمال اتصال اور شبہ کمال اتصال کی وجہ سے فصل کی صورت میں ہوتا ہے۔ شاید یہ مختصر سابیان علمِ معانی کے کلام کی بلاغت میں کردار، اور نو آموز ادیب کے لئے معاون اسالیب اور ان اسالیب کے حسن ترتیب، اور ان احوال ومقامات کے انتخاب کے مقرر کردہ طریقہ کو بیان کرنے میں کافی وافی ہوگا، جن میں ان اسالیب کو استعمال کیا گیا ہے۔علم البدیع آپ پہلے یہ جان چکے کہ علمِ بیان ایک معنی کو تشبیہ، مجاز، اور کنایہ جیسے متعدد اسلوبوں کے ذریعہ ادا کرنے کا ذریعہ ہے، ــــــــــــ اور یہ بھی جان چکے کہ علم معانی کا پڑھنا کلام کو مقتضائے حال کے مطابق ادا کرنے میں معین ومددگار ہوتا ہے، ساتھ ہی اس میں بلاغت کی غرض بھی پورے طور پر پائی جاتی ہے، جسکو کلام کے سیاق وسباق اور اسکے قرائن سے سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ایک دوسری قسم ہے جو نہ علم بیان کے مباحث کو شامل ہے، اور نہ اسکے پیش نظر علم معانی کے مسائل ہیں، لیکن یہ ایک ایسا علم اور بحث ہے جو لفظی یا معنوی جمال کے متعدد انوکھے رنگوں سے الفاظ ومعانی کو مزین