الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
انسان سے تشبیہ دی ہے، پھر مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کی طرف اس کے ایک لازم ’’انفاس‘‘سے اشارہ کیاگیا، اور یہی انفاس مکنیہ کا قرینہ ہے، اور’’عازلت‘‘ میں ترشیح ہے۔ (۲) ’’عمود‘‘ میں استعارہ تصریحیہ اصلیہ ہے، اس میں قوم کے سردار کو عمود (ستون) سے تشبیہ دی گئی ہے اور جامع دونوں میں ذمہ داری اٹھانا ہے، اور قرینہ ’’یھهلك‘‘ہے، اور ’’الی هھُلكٍ یصیر‘‘ میں تجرید واقع ہے۔ (۳) ’’اشتیاق كو عطش‘‘سے تشبیہ دی گئی، جامع دونوں میں مقصد کو دیکھنا اس کا منتظر رہنا ہے، پس استعارہ تصریحیہ اصلیہ ہے، او رقرینه ’’الی لقاء ك ‘‘ہے اور یہ استعارہ مطلقہ ہے۔ (۴) ’’مرضت‘‘ میں استعارہ تبعیہ ہے، ظلمت کو مرض سے تشبیہ دی گئی، اور جامع دونوں میں نشاط وچستی کے مظاہر کا مخفی ہونا ہے، پھر مرض مصدر سے’’مرضت‘‘ مشتق کیا گیا، تو استعارہ تصریحیہ تبعیہ ہے، اور ’’مایضیٔ لھها نجم ولاقمر‘‘ میں تجرید ہے۔ (۵) النَّوْربمعنی پھول یا اس کی کلی جس سے مراد حسین عورتیں ہیں، اور جامع حسن وخوبصورتی ہے، پس استعارہ تصریحیہ اصلیہ ہے، اور الخدود کے ذکر میں تجرید ہے اور’’الکمائم‘‘کے ذکر میں ترشیح ہے، لہذا یہ استعارہ مطلقہ ہے۔التمرین - ۱ آنے والی مثالوں میں استعارہ کی ہر قسم کو بیان کریں، اور اس میں ترشیح کی تعیین کریں۔ (۱) سری رفاء نے کہا ہے ؎ موسم ربیع کے ہاتھوں نے صحیفے لکھ دئے ہیں -- سرو درخت کی سطریں حسن میں گویا اس کی سطریں ہیں۔ (۲) اور جب زمانہ لوگوں پر اپنا سینہ تانتا ہے -- تو وہ دوسرے لوگوں کے پاس مہمان ہوجاتا ہے۔ (۳) اور متنبی کافور کی مذمت میں کہتا ہے ؎ شہر کے نگہبان اپنی لومڑیوں سے غافل ہوگئے -- تو زیادہ کھانے سے لومڑیوں کو بدہضمی ہوگئی، اور انگور کے خوشے ختم ہوگئے۔ (۴) علی جارم لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ موت مجمع میں اکڑ کر چلتی ہے، اور موت کے چاروں طرف اس کے لشکر هیں یعنی تلواریں اور نیزے ۔