الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۷) تشبیہ کی بلاغت اور عرب اور متأخرین ادباء سے منقول کچھ اقوال تشبیہ میں بلاغت اس سے پیدا ہوتی ہے کہ تشبیہ آپ کو کسی ایک چیز سے اس کے مشابہ کسی دوسری نادر چیز کی طرف یا اس کے مماثل کسی اچھوتی چیزکی طرف لے جاتی ہے، اور یہ انتقال جس قدر دور اور تصور سے بعید ہوگا، یا اس میں کم وبیش خیالات کی آمیزش ہوگی، اتنی ہی یہ تشبیہ دل کے لئے عمدہ اور نفس کی پسندیدگی کا باعث ہوگی۔ چنانچہ جب آپ کہیں کہ ’’فلاں شخص لمبائی میں فلاں کے مشابہ ہے‘‘ یا زمین شکل میں گیند کے مشابہ ہے، یا برطانوی جزیرے جاپان کے شہروں کے مشابہ ہیں، تو ان تشبیہات میں بلاغت کی کوئی تاثیر نہیں ہے، اس لئے کہ مشابہت ظاہر ہے، اور اس پر مطلع ہونے کے لئے کسی مہارت اور ادبی محنت کی ضرورت نہیں ہے، اور یہ خیالات سے بھی خالی ہیں۔ اس قسم کی تشبیہ لانے کا مقصد بیان ووضاحت اور شی کو قریب الی الفہم کرنا ہوتا ہے، اور زیادہ تر اس کا استعمال علوم وفنون میں ہوتا ہے، لیکن جب آپ ستارے کی تعریف میں معری کا یہ شعر سنیں گے تو تشبیہ کی دلکشی آپ کو پکڑے گی ؎ یُسْرِعُ اللَّمْحَ فِی احْمِرَارٍ کَمَا تُسْــ رِعُ فِی اللَّمْحِ مُقْلَةُ الْغَضْبَانِ ترجمہ:- وہ ستارہ تیزی کے ساتھ سرخ روشنی میں چمکتا ہے، جس طرح غصہ میں آئے آدمی کی آنکھ کی پتلی تیزی کے ساتھ چمکتی ہے۔ کیونکہ ستارہ کی اپنی سرخ روشنی کے ساتھ اس کی تابناکی اور چمک کو غصہ ور آدمی کی آنکھ کی تیزی کے ساتھ سرخ ہونے سے تشبیہ دینا، یہ ان نادر تشبیہات میں سے ہے جو کسی ادیب ہی کے لئے ممکن ہوسکتا ہے۔ اسی طرح شاعر کا یہ قول بھی نادر تشبیہات میں سے ہے ؎ وَکَأَنَّ النُّجُوْمَ بَیْنَ دُجَاهھَا سُنَنٌ لَاحَ بَیْنَهُنَّ ابْتِدَاعُ ترجمہ:- ستارے رات کی تاریکیوں کے درمیان گویا ایسی سنتیں ہیں جن کے درمیان بدعت ظاہر ہوئی ہے۔ اس لئے کہ اس تشبیہ کے حسن وجمال سے ایسی دو حالتوں کے درمیان مشابہت قائم کرنے میں شاعر کی مہارت اور حذاقت کا آپ کو شعور ہوگا، جن دو حالتوں کے درمیان مشابہت کا دل میں تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے ــــــــــــــ