الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
۵ - بلاغۃ الاستعارۃ یہ بات پہلے گذرچکی کہ تشبیہ میں بلاغت دو طرح سے پیدا ہوتی ہے، ایک طریقہ اس کے الفاظ کی ترکیب ہے اور دوسرا طریقہ ذھنوں سے دورا چھوتے طریقہ پر مشبہ بہ کو لانا، جو صرف ایک ایسے ادیب کے ذھن میں ہی آسکتا ہے جس کو اللہ تعالی نے اشیاء کے درمیان باریک وجوہ شبہ کو پہنچاننے کی استعداد سلیم عطا کی ہو، اور معانی کو مربوط کرنے کی، اور ایک معنی سے دوسرے معنی پیدا کرنے کی انتہائی زیادہ صلاحیت وقدرت ودیعت کی ہو۔ اور استعارہ کی بلاغت کا راز بھی ان دو طریقوں سے تجاوز نہیں کرتا (یعنی ان دو طریقوں میں منحصر ہے) پس استعارے میں لفظ کی جہت سے بلاغت یہ ہے کہ اس کی ترکیب تشبیہ کو جان بوجھ کر چھوڑنے پر دلالت کرے، اور آپ کو بالقصد آمادہ کرے ایک ایسی نئی صورت کے تصور وتخیل پر جس کا حسن وجمال تمهیں بھلادے اس پوشیدہ اور مخفی تشبیہ کو جس کو کلام متضمن ہے۔ ذرا بحتری کا یہ شعر دیکھئے جو فتح بن خاقان کے بارے میں ہے ؎ یَسْمُوْ بِکَفٍّ عَلَی الْعَافِیْنَ حَانِیَةٍ تَهھْمِي وَطَرْفٍ إِلَی الْعَلْیَاءِ طَمَّاحٍ ممدوح کو بلندی حاصل ہے، مانگنے والوں پر شفقت کرنے والی اور ہمیشہ بہنے والی ہتھیلی سے اور ہر وقت بلندی کی طرف دیکھنے والی نگاہ کی وجہ سے (یعنی ان خوبیوں کی وجہ سے وہ بلند مرتبہ ہے) کیا آپ نے دیکھا ہتھیلی کو جو ایک ایسے بادل کی صورت میں ممثل ہوئی جومانگنے والوں پر موسلادھار برس رہا ہو، اور یہ کہ یہ صورت آپ کے جذبات وخیالات پر غالب آگئی تو اس نے آپ کی توجہ ہٹادی کلام میں پوشیدہ تشبیہ سے۔ اور جب آپ بحتری کا یہ شعر سنیں گے جو متوکل بادشاہ کے مرثیے میں ہے، جب وہ دھوکے سے قتل کیا گیا۔ صَرِیْعٌ تَقَاضَاهُ اللَّیَالِی حُشَاشَةً یَجُوْدُ بِهھَا وَالْمَوْتُ حُمْرٌ أَظَافِرُهْ ع وہ زمین پر پچھاڑا ہوا انسان تھا کہ زمانے نے اس سے بقیہ جان وروح کا مطالبہ کیا کہ اس کی بھی سخاوت کردے، اور موت کے ناخن ہمیشہ سرخ رہتے ہیں۔ کیا آپ اپنے خیال وتصور سے دور کرسکتے ہیں موت کی اس خوفناک صورت کو، اور وہ ایسے پھاڑ کھانے