الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اور اسکا لشکر میرے حکم کے تحت کام کررہا ہے، والسلام (۲) زیاد بن ابی سفیان نے تقریر کرتے ہوئے کہا ہے ـــــــــــــ اے لوگو! هم سے متعلق بری باتیں جو تم جانتے ہو وہ ہرگز تمہیں هم سے متعلق سنی ہوئی اچھی باتوں سے نفع اٹھانے سے نہ روکیں۔حل تمرین - ۲ (۱) طاہر بن حسین کا خط ایجازِ قصر کی بہت بہترین مثال ہے، کیونکہ یہ اختصار اورکم الفاظ کے باوجود ان تمام باتوں کو حاوی ہے جس پر مامون مطلع ہونا چاہتا ہے، یعنی قتال کے حالات اور اس میں مدد کا آنا وغیرہ ۔ اور ایجاز کا جمال اسکے معانی کے واضح ہونے اور اسکے سامعین کے دلوں کو مطمئن کرنے اور اسکے فضول کلام کو چھوڑنے میں ہے، اور اس لئے بھی جمال ہے کہ اسکا کاتب جانتا ہے کہ مامون قتال کے نتیجہ کو جاننے کا منتظر ہے، پس اسنے اسکو جلدی سے خوش کرنا چاہا تو اس نے ایجاز کا یہ راستہ اپنایا۔ (۲) زیاد کی تقریر میں ایجازِ قصر ہے، اسلئے کہ یہ تقریر کم الفاظ کے ساتھ بغیر صراحت کے زیاد کے ان تمام اخلاق کو جامع اور حاوی ہے جسکو لوگ ناپسند کرتے ہیں، جیسے کہ یہ تقریر خیر کی ان تمام خصلتوں کو گھیرے ہوئے ہے جو اسکی قیمتی نصیحتوں اور مفید وصیتوں میں شامل ہے، ـــــــــــــ اور ایجاز کا جمال یہاں اسکی سلامتی اور حسن ترتیب وسلاست میں ہے، اور کلام کے دلالت کرنے میں ہے، کلام والے کے بلاغت پر قادر ہونے اور تعبیر میں مہارت پر۔التمرین - ۳ آنے والے شاہی فرامین میں جمالِ ایجاز بیان کریں۔ (۱) خلیفہ ابوجعفر منصور نے کسی قوم کی اپنے گورنر سے شکایت کے بارے میں یہ فرمان لکھ بھیجا، ’’جیسے تم ہو ویسا تم پر امیر مقرر کیا گیا ہے‘‘۔ (۲) مصر کے گورنر نے ابوجعفر منصور کو دریائے نیل کے پانی کی کمی کے بارے میں لکھا تو اس نے یہ فرمان لکھ بھیجا ’’تم اپنی فوج کو بگاڑ سے پاک صاف رکھو تو دریائے نیل تمہیں اپنی لگام دے دے گا‘‘۔ (۳) اور ابو جعفر نے مقامِ حمص کے اپنے گورنر کے خط میں یہ فرمان لکھ بھیجا، درانحالیکہ اس خط میں بہت غلطی تھی اپنےمنشی کو بدل دو ورنہ میں تمہیں بدل دونگا۔