الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
التمرین - ۱ آنے والی مثالوں میں خبر کے مقتضائے ظاہر کے خلاف ہونے کی وجہ بیان کریں۔ (۱) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــــــــ آپ ان کے لئے رحمت کی دعا کریں، اس لئے کہ آپ کا رحمت کی دعا کرنا ان کے لئے سکون کا باعث ہے۔ (۲) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــــــــ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے، اور اللہ بے نیاز ہے۔ (۳) بیشک بے کاری بگاڑ کا سبب ہے (یہ بات آپ اس سے کہیں جو یہ جانتا ہو لیکن کام کو ناپسند کرتا ہو)۔ (۴) علم نافع ہے، (یہ بات آپ اس سے کہیں جو علوم کے فائدے کا انکار کرتا ہو)۔ (۵) ابو طیب متنبی کا قول ہے ؎ اے آقا! آپ ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، کیونکہ مجرم کے ساتھ نرمی کا برتاؤ سزا ہے۔حل تمرین - ۱ (۱) پہلی مثال میں مقتضائے ظاہر یہ تھا کہ خبر بغیر تاکید کے لائی جاتی، کیونکہ مخاطب حکم سے خالی الذھن ہے لیکن چونکہ کلام میں پہلے ایک بات ہے ’’وَصَلِّ عَلَیْھهِمْ‘‘ جو حکم کی نوعیت بتلاتی ہے (کہ جب آپ ﷺکو دعا کا حکم ہے تو اس سے ضرور کوئی بات وفائدہ ہوگا، اب اس کو انتظار ہوگیا) اس کو سائل متردد کے درجہ میں اتار دیا گیا، اور مقتضائے ظاہر کے خلاف کلام کوتاکید کے ساتھ پیش کیا کیا، ’’ إِنَّ صَلٰوتَكَ سَکَنٌ لَھهُمْ‘‘ (۲) مقتضائے ظاہر یہ تھا کہ خبر تاکید کے ساتھ لائی جاتی، کیونکہ مخاطب لوگ اللہ کی وحدانیت کے منکر ہیں، لیکن جب ان کے سامنے ایسے دلائل وشواہد موجود ہیں کہ اگر وہ ان میں غور وفکریں تو انکار ختم ہوجائے، تو ان کو غیر منکرین کی طرح گردانا گیا، اور مقتضائے ظاہر کے خلاف خبر کو تاکید سے خالی کرکے اس طرح پیش کی گئی ’’اَللّٰہهُ أَحَدٌ، اللّٰہهُ الصَّمَدُ ‘‘ (۳) مقتضائے ظاہر یہ تھا کہ خبر تاکید سے خالی پیش کی جاتی کیونکہ یہاں مخاطب بے کاری کے بگاڑ کا سبب ہونے کا نہ منکر ہے نہ متردد ہے، لیکن اس کا سستی کی طرف میلان، اور اس کا کام و عمل سے ہٹنا یہ انکار کی علامت ہے، تو اس کو منکر کے درجہ میں اتار کر خبر اس کے سامنے وجوبًا تاکید کے ساتھ پیش کی گئی۔