الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
غافل اور لاپرواہ ہے تو گویا وہ موجود نہیں ہے۔ (۴) یَارَجُلَ النَّجْدَةِۃ وَالْمُرُوْءَةِۃ جِئْتُ أَرْجُوْ مُعُوْنَتَكَ ــــــــــ اوبہادری اور شرافت والے آدمی! میں تمہارے پاس مدد کی امید لیکر آیا ہوں۔ یہاں منادی قریب کو ’’یا‘‘ سے ندا دی گئی ہے، اشارہ کرنے کے لئے کہ وہ بلند درجہ اور عظیم المرتبت ہے، گویا اسکی عظمت میں درجہ کی دوری مسافت کی دوری ہے۔التمرین - ۳ آنے والی مثالوں میں ندا کی مراد اور غرض کیا ہے؟ (۱) اے عداء ! تیرے بعد زندگی میں کوئی مزہ نہیں ہے، اور نہ کسی دوست کو کسی دوست سے ملنے میں خوشی ہے۔ (۲) اے بہادر! اقدام کر (یہ جملہ تو اس سے کہے جو دشمن سے مقابلہ کرنے میں تردد کررہا ہے)۔ (۳) اے بیٹے! میں نے تجھے پکارا مگر تو نے مجھے جواب نہیں دیا، پس میری پکار ناامیدی ہوکر مجھ پر لوٹ آئی۔ (۴) اے فلاں! بخدا تو مجھ سے کہہ، اور میں بھی مجھ سے کہتا ہوں اور مجھ سے سوال کرتا ہوں (اگلے شعر والی بات) کیا تو ستر سال کی عمر میں بھی وہی چاہتا ہے جو بیس سال کی عمر میں کرتا تھا۔ (۵) اے دار عاتکہ! تجھے سلام ہو، میں تیرے اور تجھ میں رہنے والی کے بارے میں اشعار کہہ رہا ہوں۔حل تمرین - ۳ (۱) یہاں ندا سے مقصد منادی پر اظہار حسرت ہے منادی کے فوت کر دینے پر۔ (۲) یہاں ندا سے مقصد منادی کو ابھارنا ہے اقدام اور دشمن سے مقابلہ پر۔ (۳) یہاں مقصد اظہار حسرت ہے لڑکے کے فوت کردینے پر اور اسکی زندگی سے امید منقطع ہوجانے پر۔ (۴) مقصد یہاں زجر وتوبیخ ہے، کیونکہ شاعر اپنے آپ كو ڈانٹ رہا ہے اور روک رہا ہے بڑھاپے کے زمانے میں ان لہو ولعب کے تقاضوں اور بے حیائی کے طریقوں پر چلنے سے جن پر وہ جوانی کے زمانے میں چلا کرتا تھا۔ (۵) ندا سے مقصد یہاں تحسر یعنی اظہار حسرت ہے۔ ***