الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ فلکیات کی تحقیق کو تھوڑے عرصہ کے لئے مؤخر کرنا ضروری ہے یہاں تک کہ اسلامی حکومت مستحکم ہوجائے اور اسلام کی چٹان مضبوط ہوجائے۔ اور دوسری مثال میں ابن حجاج کا ممدوح اس سے کہہ رہا ہے کہ باربار تیرے پاس آکر میں نے تجھے بوجھل کردیا، تو ابن حجاج ادب اور ظرافت کے ساتھ اسکو اسکی رائے سے پھیرتا ہے، اور اسکی بات کو اسکے اصل معنی سے دوسرے معنی کی طرف منتقل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بیشک آپ نے مجھ پر اپنی نعمتوں کے ذریعہ میرے کاندھے کو بوجھل کردیا ہے اور یہی بات دوسرے شعر میں بھی ہے، کلام کی اس انوکھی قسم کا نام ’’اسلوبِ حکیم‘‘ہے۔القاعدہ (قاعدہ) (۷۷)’’ اسلوب حکیم ‘‘کہتے ہیں مخاطب کو اس چیز کے علاوہ ملے جسکا وہ انتظار کرتا ہے، یا تو اسکے سوال کو چھوڑ دینے کے ذریعہ ، یا مخاطب کو اسکے سوال کے علاوہ دوسرے سوال کا جواب دینے کے ذریعہ، یا اسکے کلام کو اسکے مقصود کے علاوہ پر محمول کرنے کے ذریعہ ، یہ اشارہ کرتے ہوئے کہ مخاطب کے لئے یہی سوال کرنا زیادہ مناسب تھا، یا یہی معنی مراد لینا زیادہ مناسب تھا۔التمرین - ۱ آنے والی مثالوں میں کلام اسلوبِ حکیم کے طریقہ پر کیسے استعمال ہوا ہے واضح کریں۔ (۱) شاعر کہتا ہے ؎ میں اپنے ایک ساتھی کے پاس آیا، اور ایک پیش آنے والی ضرورت کی وجہ سے میں نے ایک دینار قرض مانگا تو اس نے جواب دیا کہ بخدا میرے گھرنے کوئی عین (سونا چاندی) جمع نہیں کیا ہے، تو میں نے اس سے کہا اور کوئی انسان بھی نہیں؟ (۲) ایک انتہائی بوڑھے سے پوچھا گیا، آپ کی عمر کتنی ہے؟ تو اس نے کہا میں صحت وعافیت کے ساتھ خوشحال ہوں۔ (۳) کسی سے پوچھا گیا، مالداری کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ سخاوت یہ ہے کہ تم موجود چیز کی سخاوت کرو۔ (۴) ایک پردیسی سے دین اور عقیدے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا میں لوگوں کے لئے وہی