الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۱۵) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــــــ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى(النجم ۳) ـــــــــــاور وہ اپنی خواہش نفس سے بات نہیں کرتے ہیں، وہ تو محض ایک وحی ہے جو ان پر کی جاتی ہے۔الاجابہ (نمونے کا حل) (۱) اس میں دو جملوں یعنی ’’إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ اور ’’لَایُؤْمِنُوْنَ‘‘ میں فصل کیا گیا، اسلئے کہ دوسرا جملہ پہلے جملے کی تاکید ہے، اسلئے ان دو جملوں میں کمالِ اتصال ہے۔ (۲) یہاں دو جملوں میں وصل کیا گیا، اسلئے كه دونوں جملے خبر میں متحد ہیں، اور معنیً مناسبت بھی ہے، اور فصل کا متقاضی کوئی سبب بھی نہیں ہے۔ (۳) یہاں دوسرے جملے ’’قَالُوْا‘‘ کا پہلے جملے ’’وَأَوْجَسَ مِنْهُھمْ خِیْفَةًۃ‘‘ سے فصل کیا گیا، اسلئے کہ ان دو جملوں کے درمیان شبہِ کمالِ اتصال ہے، کیونکہ دوسرا جملہ پہلے جملے سے پیدا ہونے والے سوال کا جواب ہے، گویا کہ سائل نے پوچھا کہ جب ابراہیمؑ نے فرشتوں کو دیکھا اور وہ ڈرگئے تو فرشتوں نے ان سے کیا کہا؟ تو اسکا جواب دیا گیا ’’قَالُوْا لَاتَخَفْ‘‘ فرشتوں نے کہا آپ خوف نہ کریں۔ (۴) یہاں دو جملوں میں فصل ہے، اسلئے کہ ان دونوں میں کمالِ انقطاع ہے، کیونکہ دو جملوں میں معنیً کوئی مناسبت نہیں ہے۔ (۵) چاروں جملوں میں وصل ہے، کیونکہ انشاء میں متحد ہیں، مناسبت بھی ہیں، اور فصل کا متقاضی کوئی سبب بھی نہیں ہے۔ (۶) دو جملوں یعنی ’’أَیُّهَھا النَّاسُ‘‘ اور ’’إِنِّي وُلِّیْتُ عَلَیْکُمْ‘‘ میں فصل کیا گیا، کیونکہ دونوں جملے خبر اور انشاء میں مختلف ہیں، پس ان کے درمیان کمالِ انقطاع ہے، ـــــــــــ اور دوسرے دو جملوں یعنی ’’وُلِّیْتُ عَلَیْکُمْ‘‘ اور ’’لَسْتُ بِخَیْرِکُمْ‘‘ میں وصل کیا گیاهے ، اسلئے کہ اعراب کے حکم میں دونوں کو شریک کرنا مقصود ہے، کیونکہ دونوںمحلِ رفع میں ہیں، لیکن واؤ جب حال کے لئے ہے تو وصل نہ ہوگا۔ (۷) شعر کے دونوں مصرعوں میں فصل کیا گیاهے، اسلئے کہ دوسرا مصرعہ پہلے مصرعہ سے پیدا ہونے والے سوال کا جواب ہے، تو دونوں کے درمیان شبہ کمال اتصال ہے، (اسلئے فصل کیا گیاهے) ۔