الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
میں ادنی درجہ والا اپنے سے درجہ اور مرتبے میں بڑے سے خطاب کرے۔ اور ساتویں مثال میں غور کریں، اس میں امرء القیس شعراء کی عادت کے مطابق اپنے خیالی دو ساتھیوں کو ٹھہرنے اور ان کو محبوب کی یاد میں رونے کے لئے کہہ رہا ہے، تو شعراء میں سے کوئی یہ تصور کرتا ہے کہ امرء القیس کے دو ساتھی ہیں جو آتے جاتے اس کے ساتھ رہتے ہیں، اور یہ شاعر ان سے خطاب کرتا ہے، اور ان سے اپنے راز اور دل کی چھپی ہوئی بات کرتا ہے، اور جب صیغۂ امر ایک دوست سے دوسرے دوست کے لئے یا ایک شریک وہمسر سے دوسرے ہمسر کے لئے صادر ہو، تو وہاں ایجاب والزام مراد نہیں ہوتا ہے، بلکہ محض التماس ودرخواست مراد ہوتی ہے۔ آٹھویں مثال میں بھی امرء القیس رات کو نہ کوئی حکم دے رہا ہے، نہ کسی چیز کا مکلف کررہا ہے، اس لئے کہ رات میں سننا اور ماننا نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہاں صیغۂ امر سے مقصود تمنا اور آرزو ہوتی ہے۔ اگر آپ اس کے بعد کی باقی مثالوں کو دیکھیں گے اور آپ ان كےسیاق کو سمجھ لیں گے اور ان میں موجود قرائن احوال کا احاطہ کرلیں گے، تو آپ سمجھ جائیں گے کہ امر ان میں اصلی وحقیقی معنی میں نہیں ہے، بلکہ ان میں امر ترتیب وار تخییر، تسویہه، تعجیز، تهہدید اور اباحتكے لیے هے۔القواعد (قاعدے) (۳۷) امر: کہتے ہیں بڑائی کے طریقہ پر فعل کو طلب کرنا۔ (۳۸) امر کے چار صیغے ہیں، (۱) فعل امر (۲) وہ مضارع جو لام امر کے ساتھ ملا ہوا ہو (۳) اسم فعلِ امر، (۴) وہ مصدر جو فعل امر کے قائم مقام ہو۔ (۳۹) کبھی امر کے صیغے اپنے اصلی معنی سے نکل کر دوسرے معانی میں استعمال ہوتے ہیں جو معانی سیاق کلام سے سمجھے جاتے ہیں جیسے ارشاد، دعا، التماس، تمنی، تخییر، تسویہه، تعجیز، تهہدید، اباحت۔النموذج (نمونے کی مثالیں) فعل امر کے صیغے، اور ان میں ہر صیغہ کی تعیین کے بیان میں (۱) اللہ تعالی نے حضرت یحیؑ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ــــــــــــــــــــــــ خـُذِ الْکِتَابَ ِبِقُوَّةٍۃ (مریم ۱۲) کتاب کو مضبوط پکڑلو۔