الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۲) اور نصیر الدین حَمَّامِی نے کہا ہے ؎ أَبْیَاتُ شِعْرِكَ کَالْقُصُوْرِ وَلَا قُصُوْرَ بِهَھا یَعُوْقُ وَمِنَ الْعَجَائِبِ لَفْظُهَھا حُرٌّ وَمَعْنَاهَھا رَقِیْقٌ ترجمہ:- تمہارے شعر کے ابیات محلات کی طرح ہیں، جن میں کوئی کمی نہیں ہے جو حسن وجمال سے مانع ہو۔ اور بڑے تعجب کی بات یہ ہے کہ اسکے الفاظ آزاد ہیں، اور ان کے معانی غلام ہیں۔ (۳) ظریف نوجوان شاعر نے کہا ہے ؎ تَبَسَّمَ ثَغْرُ اللَّوْزِ عَنْ طِیْبِ نَشْرِهِ وَأَقْبَلَ فِيْ حُسْنٍ یَجِلُّ عَنِ الْوَصْفِ هَلُمُّوْا إِلَیْہهِ بَیْنَ قَصْفٍ وَلَذَّۃةٍ فَإِنَّ غُصُوْنَ الزَّهْرِ تَصْلُحُ لِلْقَصْفِ ترجمہ:- اسکے بدن سے پھوٹنے والی خوشبو سے بادامی دانت مسکرا اٹھے، اور ایسے حسن کے ساتھ متوجہ ہوئے جو تعریف سے بالاتر ہے ـــــــــــــ اسکی طرف کھیل کود اور لذت کے درمیان آؤ، اسلئے کہ پھولوں کی شاخیں توڑنے کے لائق ہوتی ہیں۔البحث (مثالوں کی وضاحت) پہلی مثال میں لفظ ’’حبیب‘‘ کے دو معنی ہیں، ایک معنی ’’محبوب‘‘ کے ہیں، اور یہی قریبی معنی ہیں جو ذھن میں سبقت کرتا ہے، کیونکہ اس سے پہلے تمہید کے طور پر ’’بغیض‘‘ کا لفظ آیا ہے، اور دوسرا معنی ابوتمام شاعر کا نام ہے، اسکا نام حبیب بن اوس ہے، اوریه بعید معنی ہیں، اور شاعر نے اسی معنی کو مراد لیا ہے، لیکن شاعر نے باریکی سے کام لیا، توریہ کیا، اور قریبی معنی سے اسکو چھپالیا۔ دوسری مثال میں لفظ ’’رقیق‘‘ کے دو معنی ہیں، پہلے معنی قریب ومتبادر ہیں، وہ ’’مملوک غلام‘‘ کے معنی ہیں، اور اسکے ذھن میں سبقت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے لفظ ’’حُرٌّ‘‘ آیا ہے، اور دوسرا بعید معنی هیں، وہ معنی ہیں ’’انتہائی باریک اور آسان‘‘ اور شاعر نے یہی بعید معنی مراد لیا ہے، جبکہ اس نے اس معنی کو قریب معنی کے پردے میں چھپادیا ہے۔