الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
۲ - تقسیم الاستعارۃ الی اصلیۃ وتبعیۃ الامثلہ (مثالیں) (۱) متنبی نے ایک قلم کا ذکر کرتے ہوئے کہا؎ یَمُجُّ ظَلَامًا فِيْ نهَھَارٍ لِسَانُہهُ وَیَفْھهَمُ عَمَّنْ قَالَ مَالَیْسَ یَسْمَعُ ترجمہ:- اس کی زبان دن (کی روشنی) میں تاریکی کی ملاوٹ کردیتی ہے، اور کہنے والے کی جانب سے سمجھ جاتا ہے وہ بات جس کو وہ سنتا نہیں ہے۔ (۲) اور متنبی نے سیف الدولہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ؎ أُحِبُّكَ یَا شَمْسَ الزَّمَانِ وَبَدْرَهُ وَ إِنْ لَامَنِیْ فِیْكَ السُّهَا وَالْفَرَاقِدُ ترجمہ:- اے شمس الزماں ! اے بدر الزماں! میں آپ سے محبت کرتا ہوں اگرچہ تیرے بارے میں پوشیدہ اور بڑے ستارے مجھے ملامت کریں۔ (۳) اور معری شاعر نے مرثیہ میں کہا ہے ؎ فتًی عَشِقَتْہهُ الْبَابُلِیَّةُ حِقْبَةً فَلَمْ یَشْفِھهَا مِنْہهُ بِرَشْفٍ وَلَالَثْمِ ترجمہ:- وہ ایسا جوان ہے جس سے ایک زمانے تک بابلیہ (شراب) نے عشق کیا ہے، پھر بھی اس کو اس سے چوسنے اور بوسہ لینے سے تسلی اور تشفی نہ ہوسکی۔ (۴) اللہ تعالی کا ارشاد ہے، وَلَمَّا سَكَتَ عَن مُّوسَى الْغَضَبُ أَخَذَ الأَلْوَاحَ وَفِي نُسْخَتِهَا هُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ هُمْ لِرَبِّهِمْ يَرْهَبُونَ (الاٴعراف :۱۵۴) ــــــــــــ اور جب موسیؑ کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو ان تختیوں کو اٹھایا اور ان کے مضامین میں ان لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت تھی جو اپنے رب سے ڈرتے تھے۔ (۵) اور متنبی شاعر نے شیر کی تعریف میں کہا ہے ؎ وَرْدٌ إِذَا وَرَدَ الْبُحَیْرةَۃَ شَارِبًا وَرَدَ الْفُرَاتَ زَئَیْرُهُ وَالْنِّیْلَا ترجمہ:- وہ سرخی مائل شیر جب طبریہ جھیل پر پانی پینے کے لئے آتا ہے تو اس کی چنگھاڑ دریائے فرات اور نیل تک پہنچتی ہے۔