الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
حل تمرین - ۱ (۱) دوسرے شعر میں’’کلام علی اسلوب الحکیم‘‘ وارد ہوا ہے، اسلئے کہ مخاطب کلمہ’’عینًا‘‘ سے سونا مراد لے رہا ہے، لیکن متکلم نے اسکو دیکھنے والی آنکھ پر محمول کیا، جو مخاطب کا مقصد نہیں ہے، اشارہ کرتے ہوئے کہ اسکو قرض سے روکنا جائز نہیں ہے۔ (۲) انتہائی بوڑھے سے عمر پوچھی گئی، تو اس نے اس سوال کا جواب ترک کردیا، اور سائل کو رفق ونرمی کے ساتھ اس سے دوسری طرف پھیر دیا اور بتلایا کہ اسکی صحت کامل طور پر مضبوط ہے، سائل کو یہ بتانے کے لئے کہ صحت کا سوال کرنا زیادہ بہتر اور لائق ہے۔ (۳) آدمی سے مالداری کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے سائل کو سخاوت کے جواب کی طرف پھیردیا، اشارہ کرنے کے لئے اس بات کی طرف کہ مالداری کے اچھے اثار کی بات کرنا زیادہ بہتر ہے۔ (۴) جب پردیسی سے دین اور عقیدہ کے بارے میں پوچھا گیا، اور اس نے اس میں غور وخوض کا کوئی مطلب نہیں سمجھا تو سائل کو اس سے پھیردیا اس بات کو بیان کرکے جس پر دیندار آدمی کو رہنا مناسب ہے یعنی شریف اخلاق وعادات، اشارہ کرنے کے لئے کہ یہی غور وفکر کے زیادہ لائق ہے۔ (۵) تاجر نے سائل کو اصل پونجی سے پھیردیا اس بات( یعنی صفات) کو بیان کرکے جس پر وہ تھا یعنی امانتداری اور لوگوں کا اس پر بڑا اعتماد ، یہ بتلانے کے لئے کہ یہ دو اور ان جیسی صفات ہی نفع کو کھینچتی ہیں اور تجارت کی کامیابی کی ضامن ہیں۔ (۶) حجاج نے کلمہ ’’اطول‘‘ سے قد کا لمبا ہونا مراد لیا، اور مہلب نے اسکو فضیلت کے معنی پر محمول کردیا ، اسلئے کہ اس نے اسکو طول سے مشتق قرار دیا جو تَطَوُّل وتَفَضُّل کے معنی میں ہے۔ (۷) مزدور کو ذخیرہ اندوزی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے اسکا جواب دینا نہیں چاہا، اور سائل کو صحت اور اسکی قدر وقیمت کی خبر دیکر اسکے اصل مقصد سے پھیر دیا، یہ بتلانے کے لئے کہ اسی کا سوال زیادہ اولی ہے۔ (۸) مامون نے کلمہ ’’سید‘‘ سے عَلَم مراد لیا ہے، اور سید بن انس نے اس سے سیادت (سرداری) مراد لی جو مامون کا مقصد نہیں ہے، بادشاہوں کے ساتھ ادب برتنے کے لئے۔