الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۵) خلیفہ کہتا ہے کہ فساد ختم کرنے میں جلدی کرو، اسکے شدت اختیار کرلینے سے پہلے، ورنہ اسکا معاملہ بڑا ہوجائے گا اور تم اسکے مقابلے سے عاجز ہوجاؤگے۔ (۶) خلیفہ کہتا ہے کہ طاعت نے ان کو وہ مالداری، جاہ وجلال اور رعب ودبدبہ عطا کیا جس سے وہ خوش حال ہیں، اور سر کشی ونافرمانی نے ان میں وہ فقر، حالت کی پستی، اور ذلت پیدا کردی جن سے وہ بدبختی کے شکار ہوگئے پس ایک ہی ’’أَنْبَتَتْھهُم‘‘ کلمے میں خوشحالی اور فراخی کے تمام اسباب ہیں، اور ایک ہی ’’حَصَدَتْهُمْ‘‘ کلمے میں ذلت وبدبختی کے تمام مظاہر یعنی قید ہونا، شہر بدر ہونا، چھاپہ مارنا، اور قتل وغیرہ (جمع) ہیں۔ (۷) مامون کہتا ہے ، انسان جب اپنے دشمن پر قدرت اور قابو پالیتا ہے تو اسکا دل ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور اسکا غصہ ختم ہوجاتا ہے، پس وہ اپنے کرم اورحلم کی طرف لوٹ آتا ہے، اور معاف کرنے کو بدلہ لینے پر ترجیح دیتا ہے، پس دیکھو یہ سارے معانی کس طرح وضاحت وسلاست کے ساتھ تین کلموں میں جمع ہوگئے۔ (۸) خلیفہ کہتا ہے ، اس فقر وظلم، ذلت وغیرہ طرح طرح کی ناگواریوں کے شر سے میں تمہاری کفایت کرونگا، پس مفعول ثانی کو یہاں عموم بتانے کے لئے حذف کردیا، اور فعل کو ماضی کی صورت میں لایا وعدہ کے تحقق کو مؤکد کرنے کے لئے گویا کہ بالفعل یہ وعدہ حاصل ہوچکا، اور یہ فائدہ دینے کے لئے کہ کفایت ہونے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (۹) جعفر اپنے گورنر سے کہتا ہے ، تیرا ظلم عام ہوگیا، تیری سیرت بری ہوگئی، لوگ تجھ سے ناراض ہیں، پس تیری شکایت کرنے والے بڑھ گئے، اور تیرا شکریہ ادا کرنے والے کم ہوگئے پس یا تو تم سیدھے ہوجاؤ، اور اپنے بگڑے امور کی اصلاح کرلو، یا تو گورنری سے معزول ہوجاؤ تاکہ اسکا والی وہ بنے جو تم سے اچھا اور بہتر ہو۔ (۱۰) خلیفہ کہتا ہے کہ وہ جیل میں ڈالا گیا ہے جرم اور گناہ کی وجہ سے، پس اسکی سزا عدل ہے، اس میں کوئی ظلم نہیں ہے، لیکن اسکی توبہ اسکی سفارش کرے گی اور اس سے اس بلاء وعذاب کو اٹھالے گی جس میں وہ مبتلا ہے۔التمرین - ۴ آنے والی حکایت پڑھو، اور اس میں جو امثال ہیں ان میں ایجاز کی وجہ اور قسم بیان کرو۔ عربوں میں ایک ضَبَّہ نامی آدمی تھا، جسکے دو بیٹے تھے، ایک کا نام سعد اور دوسرے کا نام سعید تھا، ضبہ کی ایک اونٹنی بدک کر بھاگ گئی، دونوں بیٹے اسکی تلاش میں نکل پڑے، پس سعد نے اسکو پالیا تو لیکر آگیا اور سَعِیْد برابر