الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
حل تمرین - ۵ شرح:- ہم ایسی جگہ اترے جہاں فطرت كا حسن نمایاں تھا چنانچہ ایسے باغات جو بے وقت پھولوں سے كھل اٹھے تھے گویا كہ ہنستے ہوئے آفتاب كے سامنے وہ مسكرارہے ہوں اور سایوں میں پانی بہ رہا تھا اور اس كا رہٹ چل رہا تھا، تو ہم نےاس كی گردش سے پیدا هونے والی درد انگیز آواز سنی، اب معلوم ہورہا تھا كہ كوئی مسافر ہے جو اپنے اہل وعیال اور وطن سے دور ہوگیا ہے ،پھر وہ گذرے زمانے اور اماكن بعیدہ كو یاد كركے بے تاب ہوجائے اور اس كی پلكوں سے پانی بہ پڑے، تو وہ مشابہ هے اس رونے والے كے جس كی آنكھیں رواں ہیں اور اس كے گوشہائے جشم كا پانی بہہ رہا ہے اور وہ باغ كے پھول باپ كی طرح شفقت كرے اور اپنے شیرین چشمے سے اسے سیراب كرے ۔ایسے وقت میں جب بادل نے بخل سے كام لیا اور اپنے بیٹوں یعنی انواع واقسام كے پودے اور پھولوں سے روگردانی كرے ۔ اور جب تم اسے دیكھوگے تو اس كی پہیم محنت تمہیں حیران كردے گی، كیوں وہ اپنی چال میں چست اور مسلسل كار بند ہے ۔ اور وہ اپنی كثرت محنت كے باوجود تھكان سے دوچار نہیں ہوتا، نہ اسے كمزوری لاحق ہوتی ہے، پھر وہ اپنی لمبی گردش اور پیهم حركت كے باوجود اپنی جگہ سے ٹلتا نہیں اور گویا وہ ضدی سائل ہے جو برابر دریا سے اپنی عطا مانگتا ہے اور نوازش طلب كرتا ہے، پھر جب دریا اسے پانی سے نوازتا ہے تو وہ اسے باغ میں بھیجتا ہے ،چنانچہ باغ كو زندگی عطاكرتا ہے اور اسے هری گھاسوں اور رنگ برنگ كی كلیوں كا منقش جوڑا پہنا تا ہے ۔استعارات (۱) ’’ النور‘‘میں استعارہ مکنیہ ہے جس میں نور کو انسان سے تشبیہ دی گئی ہے، اور مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کے لازم ’’مبتسمًا‘‘کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ کیا گیا، اور یہی قرینہ ہے۔ (۲) ’’ اَنَّ ‘‘میں استعارہ تصریحیہ تبعیہ ہے جس میں دولاب (رہٹ) کی آواز کو’’أنین‘‘(مریض کا آواز نکالنا) کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، جامع دونوں میں ’’امتدادصوت‘‘ہے، پھر مشبہ بہ کا لفظ مشبہ کے لئے مستعار لیا گیا، او ر ’’أنین‘‘ مصدر سے أَنَّ بمعنی صَوَّت (آواز نکالی) کو مشتق کیا، اور قرینہ ’’دولاب‘‘ہے۔ (۳)’’عق‘‘میں استعارہ تصریحیہ تبعیہ ہے جس میں بادل کے بارش روکنے کو عقوق (نافرمانی) سے تشبیہ دی گئی جامع دونوں میں’’اهمال وترك‘‘ہے، پھر عقوق سے’’عَقَّ بمعنی مَنَعَ مَطَرَهُ‘‘ مشتق کیا، اور