الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
تقسیم القصر إی حقیقی واضافی الامثلہ (مثالیں) (۱) لَایُرْوِيْ مِصْرَ مِنَ الْاَنْهَھارِ إِلَّا النِّیْلُ ــــــــــــ مصر کو صرف دریائے نیل ہی سیراب کرتا ہے۔ (۲) إِنَّمَا الرَّازِقُ اللّٰہهُ ــــــــــــ روزی دینے والا تو صرف اللہ ہی ہے۔ (۳) لَاجَوَادَ إِلَّا عَلِیٌّ ــــــــــــ سخی تو صرف علی ہے۔ (۴) إِنَّمَا حَسَنٌ شُجَاعٌ ــــــــــــ حسن ہی بہادر ہے۔البحث (مثالوں کی وضاحت) ہم پہلے بتلاچکے کہ طرفین کے اعتبار سے قصرِ کی دو قسمیں ہیں، (۱) قصرِ صفت علی موصوف (۲)قصر موصوف علی صفت اور یہاں ہم حقیقت وواقع کے اعتبار سے قصر کی دوسری تقسیم بیان کرنا چاہتے ہیں۔ پس پہلی دو مثالوں میں آپ دیکھیں، دونوں میں قصرِ صفت علی موصوف ہے، اور دونوں مثالوں کی صفت میں غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ صفت اپنے موصوف سے جدا ہوکر دوسرے موصوف میں بالکل نہیں جاتی ہے، چنانچہ پہلی مثال میں سر زمین مصر کو سیراب کرنا ایک ایسی صفت ہے جو دریائے نیل سے دنیا کے دوسرے دریاؤں کی طرف متجاوز نہیں ہوتی ہے، -- اور دوسری مثال میں روزی دینے کی صفت اللہ سے اسکے علاوہ کی طرف متجاوز نہیں ہوتی ہے، ان دونوں مثالوں میں جو قصر ہے اسکا نام’’ قصر حقیقی ‘‘ہے، اسی طرح ہر وہ قصر جس میں مقصور مقصور علیہ کے ساتھ حقیقت وواقع کے لحاظ سے خاص ہو، اس طور پر کہ وہ دوسرے کی طرف بالکل تجاوز نہ کرے (اسکو قصر حقیقی کہا جائے گا) دوسری دو مثالوں میں آپ دیکھیں، ان میں پہلی میں ’’قصرِ صفت علی الموصوف‘‘ ہے، اور دوسری میں ’’قصرِ موصوف علی الصفۃ‘‘ ہے، ان دونوں مثالوں میں آپ مقصور میں غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ مقصور مقصور علیہ کے ساتھ کسی معین چیز کی طرف نسبت کرتے ہوئے خاص ہے، نہ کہ اسکے علاوہ تمام چیزوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے۔ اسلئے کہ متکلم پہلی مثال میں سخاوت کی صفت کو علی کے ساتھ منحصر کرنا چاہتا ہے، ایک معین شخص مثلاً خالد کی