الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۶) اللہ تعالی کا ارشاد ہے أَمَدَّكُم بِمَا تَعْلَمُوْنَ أَمَدَّكُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ (شعراء ۱۳۲) ـــــــــــــــ اس نے تمہاری مدد کی ان چیزوں سے جن کو تم جانتے ہو، اس نے مویشیوں اور اولاد سے تمہاری مدد کی۔الاجابہ (نمونے کا حل) (۱) آیت کریمہ میں اطناب انذار کے مقام میں تکرار کے ذریعہ ہے تاکہ سامعین کے دلوں میں مفہوم کو اچھی طرح راسخ کیا جائے۔ (۲) آیت کریمہ میں دو جگہ تذییل کے ذریعہ اطناب ہے، پہلی جگہ ’’أَفَإِنْ مِّتَّ فَھهُمُ الْخَالِدُوْنَ ‘‘ ہے، اس میں تذییل ضرب المثل کے قائم مقام نہیں ہے، اور دوسری جگہ ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُۃ الْمَوْتِ‘‘ ہے، اس میں تذییل ضرب المثل کے قائم مقام ہے۔ (۳) شعر میں اطناب دوجگہ احتراس کے ذریعہ ہے، پہلی جگہ پہلے مصرعہ میں ’’وَهُوَبِيْ کَرَمُ‘‘ کے ذکر کے ساتھ ہے، اور دوسری جگہ دوسرے مصرعہ میں ’’وَهُوَبِيْ جُبْنٌ‘‘ کے ذکر کے ساتھ ہے۔ (۴) شعر میں اطناب اعتراض کے ذریعہ ہے، پس ’’وَأَنْتِ مِنْھهُمْ‘‘ یہ جملہ معترضہ ہے جو’’ إنَّ ‘‘ کے اسم اور اسکی خبر کے درمیان آیا ہے، اسکا مقصد مخاطب کی مذمت کی طرف جلدی کرنا ہے۔ (۵) یہاں اطناب احتراس کے ذریعہ ہے، کیونکہ انسان کا نفس اسکے دشمن کے قائم مقام ہے، کیونکہ وہ اسکو ہلاکت کے کاموں کی طرف دعوت دیتا ہے۔ (۶) آیت کریمہ میں اطناب ’’ ایضاح بعد الابہهام ‘‘ کے ذریعہ ہے، کیونکہ ’’ أَنْعَام وَبَنِیْنَ‘‘ کا ذکر اس سے پہلے اللہ تعالی کے ارشاد ’’بِمَا تَعْلَمُوْنَ‘‘ میں جو ابهام ہے اسکی وضاحت ہے۔التمرین - ۱ آنے والی ہر مثال میں تکرار کا مقصد واضح کریں۔ (۱) حماسہ کے کسی شاعر نے کہا ہے ؎ میں عزت کے ایسے مرکز میں ہوں جو بہت بڑا ہے، سخاوت وہاں ہے، اور وہیں فضل وکرم اور فطری اخلاق ہیں۔ (۲) ایک دیہاتی عورت اپنے دو بیٹوںکے مرثیے میں کہتی ہے ؎