الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
میں اسی معنی کو خوبصورت انداز سے اور مؤکد کررہا ہے، پس کہتا ہے، تیرا اسکو اسکی سخاوت اور خرچ کرنے پر ملامت کرنا بیکار جائے، گا، اس لئے كه ممدوح مثل بادل ہے اس کی عادت ہی برسنا ہے اور اسکی طبیعت ہی لوگوں کو عمومی بارش دینا ہے اور بادل کو اس بارے میں کوئی ملامت نہیں کرتا ہے۔اشعار میں استفہام تین جگہ ہے (۱) هَھلْ أَثَّرُ اللَّوْمُ فِي الْبَحْرِ ؟ ـــــــــــــ یہاں استفہام کی غرض نفی ہے، کیونکہ معنی هے کہ ملامت سمندر میں اثر نہیں کرتی ہے۔ (۲) أَتَنْھهَیْنَ فَضْلًا عَنْ عَطَایَاهُ لِلْوَرٰی ؟ ـــــــــــــ استفہام یہاں تعجب کے لئے ہے، شاعر تعجب کررہا ہے اس ملامت کرنے والی پر کہ کیسے تو عطا سے روکتی ہے جبکہ وہ مثل بادل ہے، اس کی طبیعت ہی جو دو سخا ہے۔ (۳) وَمَنْ ذَا الَّذِی یَنْهَھی الْغَمَامَ عَنِ الْقَطْرِ ؟ ـــــــــــــ استفہام یہاں نفی کے لئے ہے، شاعر یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ مخلوق کی طاقت نہیں ہے کہ وہ بادل کو سخاوت سے روکے۔ ***۴ - التمنی الامثلۃ (مثالیں) (۱) ابن الرومی نے ماہ رمضان کے بارے میں کہا ہے ؎ وَلَّی الشَّبَابُ حَمِیْدَۃةً أَیَّامُه لَوْکَانَ ذٰلِكَ یُشْتَرٰی أَوْیَرْجِعُ