الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
حل تمرین - ۷ اردو تشریح:- میں اس رات میں چلا مجھے سواری لیجارہی تھی منزل کی طرف جس کا میں قصد کررہا تھا، اور اس رات کی صبح چھپی ہوئی تھی، اور وہ صبح رات کی تاریکی کی پناہ لئے ہوئے تھی جو اس كوچھپائے ہوئے اور مخفی کئے ہوئے تھی، اور میں برابر تاریکی میں گھستا رہا، یہاں تک کہ رات کے کناروں میں صبح ظاہر ہوئی اور تاریکی چھٹ گئی گویا وہ رسیوں سے چھوٹ گئی، اور بادل آسمان کے کناروں میں بھرگئے اور اس میں بادلوں کی بھیڑ ہوگئی گویا کہ وہ ایڑ لگانے والے گھوڑے ہیں، اور گویا چمکدار بجلیاں ان گھوڑوں کی لگامیں ہیں۔ حسن بلاغت:- اشعار میں حسن بیان کی بہت سی اقسام ہیں، پہلی چیز صبح کے ظاہر ہونے سے ڈرنے کی اور اس کے تاریکیوں کے لشکروں کے دامن تھامنے کی منظر کشی میں نادر خیال کو ظاہر کرنا ہے، اس لئے کہ اس رات میں وحشت، بجلیوں کی چمک اور خوف وکپکپی تھی۔ دوسرے شاعر نے اس خیال کو مؤید کیا اپنے قول ’’صبح رات کے کناروں میں طلوع ہورہی ہے‘‘ جو تجھے خوف زدہ اور سہمے ہوئے کی صورت عطا کرتا ہے، پس یہ صبح ڈرتے ہوئے طلوع ہورہی ہے تاکہ وہ خطروں کی جگہوں کی دیکھ بھال کرے، اور سامنے ظاہر ہونے سے پہلے خطروں کے زائل ہونے سے مطمئن ہوجائے۔ تیسرے رات کے چلے جانے کو اس نے مصور کیا ہے اونٹ کی شکل میں جو اپنی رسیوں میں ہو اور حرکت نہ کرسکے پھر ان رسیوں سے چھوٹ کر ادھر ادھر بھاگے لمبی قید وبند کے بعد آزادی کو محسوس کرتے ہوئے۔ اور چوتھے بادل بھیڑ کے ساتھ اور پے در پےٹكڑوں کو ــــــــــــــ جب کہ ان کے درمیان بجلیاں چمک رہی ہوں -- ممثل کررہا ہے ایڑ لگانے والے گھوڑوں کی شکل میں جب کہ اس کی لگامیں اس کے اوپر سورج کی شعاعیں گرنے سے چمک رہی ہیں۔۴ - الاستعارۃ التمثیلیۃ الامثلۃ (مثالیں) (۱) عَادَ السَّیْفُ إِلٰی قِرَابِہٖه، وَحَلَّ اللَّیْثُ مَنِیْعَ غَابِہهٖ ــــــــــــــتلوار اپنی میان میں لوٹ آئی، اور شیر اپنے محفوظ کچھار میں داخل ہوگیا (یہ ایسے مجاہد کے لئے بولا جاتا ہے جو سفر سے اپنے وطن واپس لوٹ رہا ہو) ۔ (۲) متنبی شاعر کہتا ہے ؎