الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
رہا بحتری کا شعر تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کی نگاہ زیادہ رونے کی وجہ سے دل کے اندرونی رنج وغم پر جاسوس بن جائے تو دل میں پوشیدہ رنج وغم چھپا ہوا راز نہیں رہ جاتا، (بلکہ وہ رونے کی وجہ سے ظاہر ہوجاتا ہے) پس آپ دیکھ رہے ہیں کہ پہلا لفظ ’’عین‘‘ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے، اور دوسرا لفظ ’’عین‘‘ جاسوس کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور یہ اس کا غیر حقیقی معنی ہے، -- لیکن چونکہ آنکھ جاسوس کا ایک جزء ہے، اور جاسوس آنکھ سے ہی جاسوسی کا کام کرتا ہے، تو جزء کا اطلاق کرکے کل مراد لے لیا، (یعنی عین بولکر جاسوس مراد لے لیا) اور جزء بولکر کل مراد لینا عربوں کی عادت ہے، -- اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ عین اور جاسوس کے درمیان مشابہت کا علاقہ نہیں ہے بلکہ جزئیت کا علاقہ ہے، اور قرنیہ ’’علی الجوی‘‘ ہے پس یہ لفظی قرینہ ہے۔ ہماری مذکورہ تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لفظ’’شمس، هہزبر، اغلب، حسام، سحاب اور عین یہ سب کے سب اپنے غیر حقیقی معنی میں مستعمل ہیں، حقیقی معنی اور عارضی معنی کے درمیان علاقہ اور ربط کی وجہ سے، ان میں سے ہر لفظ کو ’’مجازِ لغوی‘‘ کہا جاتا ہے۔القاعدہ (قاعدہ) (۱۲) مجاز لغوی: وہ ایسا لفظ ہے جو کسی علاقہ اور مناسبت کی وجہ سے اپنے غیر موضوع لہ معنی میں مستعمل ہو، ایسے قرینہ کے ساتھ جو حقیقی معنی مراد لینے سے مانع ہو، اور حقیقی معنی اور مجازی معنی کے درمیان علاقہ کبھی مشابہت کا ہوتا ہے، اور کبھی مشابہت کے علاوہ ہوتا ہے، اور قرینہ کبھی لفظیہ ہوتا ہے، اور کبھی حالیہ ہوتا ہے۔النموذج (نمونے کی مثالیں) (۱) متنبی نے یہ شعر پڑھا جب وہ مصر میں بخار میں بیمار پڑا ؎ فَإِنْ أَمْرَضْ فَمَا مَرِضَ اصْطِبَارِیْ وَ إِنْ أُحْمَمْ فَمَا حُمَّ اعْتَزَامِيْ ترجمہ:- اگر میں بیمار ہوگیا ہوں (تو کوئی پرواہ نہیں) اس لئے کہ میرا صبر بیمار نہیں ہوا ہے، اور اگر مجھے بخار آگیا ہے (تو کوئی حرج نہیں) اس لئے کہ میرے عزم کو بخار نہیں آیا ہے۔ (۲) اور متنبی اپنے ممدوح کے ساتھ تھا اور بادل نے بارش كی خبر دی تو اس وقت اس نے یہ شعر کہا ؎ تَعَرَّضَ لِیَ السَّحَابُ وَقَدْ قَفَلْنَا فَقُلْتُ إِلَیْكَ إِنَّ مَعِیَ السَّحَابَا