الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
حل تمرین - ۱ (۱) ابن نباتہ دعوی کررہا ہے کہ سونے کی زردی اس میں فطری نہیں ہے، بلکہ وہ اس خوف کی وجہ سے ہے جو اسکو پیش آیا جب اس نے ممدوح کے ہاتھ کو پایا سونے میں عطا اور خرچ کے ساتھ چلتے ہوئے اور جب اس نے یہ محسوس کیا کہ اسکا یہ معاملہ اسکو تیزی کے ساتھ ہلاکت کی طرف لے جارہا ہے۔ (۲) شاعر دعوی کررہا ہے کہ مصر میں جو زلزلہ پیش آیا وہ اس برے مکر سے نہیں پیدا ہوا جو مصر کے ساتھ کیا گیا لیکن زمین نے ممدوح کا عدل دیکھا جو اطراف وجوانب میں عام ہے تو وہ مستی اور خوشی میں رقص کرنے لگی اور ہلنے لگی۔ (۳) شاعر اپنے ممدوح سے کہہ رہا ہے، جس وقت اس نے چاند کو دیکھا کہ کبھی ظاہر ہورہا ہے اور کبھی بادل کے نیچے چھپ جاتا ہے، کہ چاند کے ظہور اور اسکے چھپ جانے کو جو ہم دیکھتے ہیں تو اسکا وہ معروف ومشہور سبب نہیں ہے یعنی بادل کا متفرق متفرق ہوکر ہمارے اور چاند کے درمیان گذرنا (جسکی وجہ سے چاندکبھی ظاہر ہوتا ہے اور کبھی چھپ جاتا ہے) بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ وہ اپنی عادت کے مطابق آسمان میں ظاہر ہوا تو اس نے تیری دلکش جھلک اور پر رونق چہرہ پایا تو وہ شرم وحیا کی وجہ سے نگاہوں سے چھپ گیا۔ (۴) شاعر کہتا ہے کہ گھوڑا اپنی اصل خلقت میں کالا اور سفید پیشانی والا نہیں تھا، بلکہ اسکی سیاہی اور پیشانی کی سفیدی کا سبب یہ ہے کہ اس پر رات گذری تو اس نے سیاہ کپڑا اسکو پہناکر چھوڑ دیا پھر صبح اپنی روشنی کے ساتھ آئی تو اس نے اسکی پیشانی پر بوسہ دیا، تو سیاہی رات کا کپڑا ہے اور پیشانی کی چمک صبح کے بوسے کا اثر ہے۔ (۵) شاعر دعوی کررہا ہے کہ اس گھوڑے کی پیشانی میں اور اسکے پیروں میں جو سفیدی نظر آرہی ہے، وہ اس میں خلقی اور طبعی نہیں ہے، اور وہ مدعی ہے کہ یہاں اسکا دوسرا سبب ہے، وہ یہ ہے کہ گھوڑا صبح سے آگے بڑھ رہا تھا اور جب صبح کو اندیشہ ہوا کہ گھوڑا اس سے آگے بڑھ جائے گا تو اس نے گھوڑے کے پیروں اور پیشانی کو پکڑلیا تاکہ اسکو آگے بڑھنے سے روکدے۔ (۶) ارجانی موسم بہار میں گلاب کے کھلنے کے طبعی اسباب کا انکار کرتا ہے، اور اسکے لئے دوسرا سبب ڈھونڈ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ ممدوح کی عطایا جب پھیلنے لگی اور اسکی بھلائی زیادہ ہوگئی تو زمانہ اسکے مقابلہ پر اپنے عجز وقصور