الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
لاَتَلْقَ دَهْرَكَ إِلاَّغَیْرَمُکْتَرِثٍ مَادَامَ یَصْحَبُ فِیْہهِ ِ رُوْحُكَ الْبَدَنَ ترجمہ:- اپنے زمانے سے انتہائی لاپروائی سے ملاکر، جب تک زمانے میں تیری روح تیرے بدن کے ساتھ ہے۔البحث (مثالوں کی وضاحت) ابو اسحق غزی خبر دیتا ہے کہ ابوطیب متنبی نے ہی سیف الدولہ بن حمدان کے فضائل کو لوگوں کے درمیان عام کیا ہے اور شہرت دی ہے، اور کہتا ہے کہ اگر ابوطیب متنبی نہ ہوتا تو اس بادشاہ کی شہرت نہ پھیلتی، اور نہ لوگ اس کے سارے خصائل جانتے جن کو اب وہ جان رہے ہیں، اس کلام میں ابواسحق کے سچا اور جھوٹا ہونے کا احتمال ہے، اگر اس کا کلام واقع کے مطابق ہے تو سچا ہے اور اگر واقع کے مطابق نہیں ہے تو جھوٹا ہے۔ دوسری مثال میں متنبی اپنے بارے میں بتلارہا ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت پر راضی اور مطمئن ہے، اس کی یہ عادت نہیں ہے کہ کسی آنے والی چیز کے وہ تاک میں رہے، اور یہ بھی اس کی عادت نہیں ہے کہ فوت شدہ چیز پر ندامت ظاہر کرے یہاں بھی یہ احتمال ہے کہ متنبی اپنے بارے میں قناعت ورضامندی کے دعوی میں سچا ہو یا جھوٹا ہو۔ اسی طرح تیسری مثال میں ممکن ہے کہ ابو العتاھیہ اپنے قول ودعوی میں سچا ہو، یہ بھی امکان ہے کہ جھوٹا ہو۔ پھر چوتھی مثال میں دیکھیں، اس میں ایک قائل اپنے بیٹے کو پکار کر حسن گفتار سیکھنے کا حکم دے رہا ہے، یہ ایسا کلام ہے کہ اس کے قائل کو سچا جھوٹا نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ کسی چیز کے حاصل ہونے یا نہ حاصل ہونے کی خبر نہیں دے رہا ہے، بلکہ وہ تو آواز لگاکر حکم دے رہا ہے۔ اسی طرح پانچوں مثال میں عبد اللہ بن عباسؓ کو، اور چھٹی مثال میں متنبی کو سچ اور جھوٹ کے ساتھ متصف کرنا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ دونوں کسی چیز کے حصول یا عدم حصول کی خبر نہیں دے رہے ہیں۔ اگر آپ کلام کی تمام قسموں کا جائزہ لیں گے تو ان دو قسموں سے نکلا ہوا نہیں پائیں گے، پہلی قسم کو خبر اور دوسری قسم کو انشاء کہا جاتا ہے، -- اس کے بعد آپ مذکورہ مثالوں میں یا دوسری مثالوں میں جملوں کو دیکھیں تو ہر جملہ کو دو بنیادی رکنوں سے بنا ہوا پائیں گے، جن کو محکوم علیہ اور محکوم بہ کہتے ہیں، محکوم علیہ کو مسند الیہ اور محکوم کو مسند کہتے ہیں، اور جو مسند الیہ اور مسند کے علاوہ چیزیں جملے میں ہیں، وہ جملہ میں قید ہوا کرتا ہے وہ بنیادی رکن نہیں ہوتا ہے۔