الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
قرینہ ’’غمام‘‘ہے۔ (۴) اور’’یطلب‘‘ میں پوشیدہ ضمیر کا مرجع جو دولاب ہے، اس میں استعارہ مکنیہ ہے، جس میں دولاب کو انسان سے تشبیہ دی گئی ہے، پھر مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کی طرف اس کے ایک لازم ’’یطلب‘‘ سے اشارہ کیا گیا، اور قرینہ طلب کو دولاب کے لئے ثابت کرنا ہے۔ (۵) ’’بحر‘‘ میں استعارہ مکنیہ ہے جس میں سمندر کو سخی آدمی سے تشبیہ دی گئی ہے، جامع دونوں میں عطا ہے پھر مشبہ کو حذف کرکے اس کی طرف اس کے ایک لازم رِفْد (عطا) سے اشارہ کیا گیا، اور یہی عطاء کا بحر کے لئے ثابت کرنا استعارہ کا قرینہ ہے۔ (۶) ’’ارتدی‘‘میں استعارہ تبعیہ ہے، جس میں کلیوں اور گھاس کے روئے زمین پر ظاہر ہونے کو’’ارتداء‘‘ یعنی چادر اڑھانے سے تشبیہ دی ہے جامع دونوں میں ’’ ستر‘‘ (چھپادینا) اور ڈھانپنا ہے، پھر ’’ارتداء‘‘ مصدر سے’’ارتدی‘‘ بمعنی ظھهرفوقہهمشتق کیا گیا، اور قرینہ’’النور والعشب‘‘ (کلی اور گھاس) ہے۔۳ - تقسیم الاستعارۃ إلی مرشحۃ ومجردۃ ومطلقۃ الامثلۃ (مثالیں) (۱) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــ أُولٰـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ (البقرة : ۱۶) یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو خریدا ہدایت کے بدلہ، پس ان کی تجارت نفع بخش نہ ہوئی۔ (۲) بحتری شاعر کہتا ہے ؎ یُؤَدُّوْنَ التَّحِیَّةَ مِنْ بَعِیْدٍ إِلٰی قَمَرٍ مِنَ الْإِیْوَانِ بَادِ ترجمہ:- وہ لوگ دورہی سے سلام کرتے ہیں ایسے چاند کو جو بالاخانے سے ظاہر ہوتا ہے۔ (۳) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاء حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ( الحاقة : ۱۱) ــــــــ بیشک جب پانی سرکش ہوگیا تو ہم نے ان کو کشتی میں سوار کردیا۔ (۴) اور بحتری کہتا ہے ؎ وَأَرَی الْمَنَایَا إِنْ رَأَتْ بِكَ شَیْبَةً جَعَلَتْكَ مَرْمَیٰ نَبْلِهھَا الْمُتَوَاتِرِ ترجمہ:- اور میں موت کو دیکھتا ہوں کہ اگر وہ تیرے اندر بڑھاپا دیکھتی ہے، تو تجھے اپنے مسلسل تیروں کا نشانہ