الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
ضرورت نہیں دنیا طلب کرنے کی اور مال ومرتبہ کے حصول کے لئے کوشش کرنے کی۔ (ب) شعر میں مقابلہ ــــــــــ شاعر نے ’’سرور ومحب‘‘ـــــــــــــــ اور ’’إِسَاءَةٌ وَمُجْرِمٌ‘‘ کے درمیان مقابلہ کی کوشش کی ہے، لیکن مقابلہ میں وہ کامیاب نہیں ہے ، کیونکہ’’مجرم‘‘ محب کا مقابل نہیں ہے، مجرم کا مقابل تو’’بریٌٔ‘‘ہے۔۴ - حسن التعلیل الامثلۃ (مثالیں) (۱) معری کا مرثیہ میں شعر ہے ؎ وَمَا کُلْفَةُ الْبَدْرِ الْمُنِیْرِ قَدِیْمَةً وَلٰکِنَّھهَا فِی وَجْهِھہهِ أَثَرُ اللَّطَمِ ترجمہ:- روشن چودھویں کے چاند کی جھائیں (پرچھائیاں) پرانی نہیں ہیں، لیکن یہ اسکے چہرے پہ تھپڑ مارنے کا اثر ہے۔ (۲) ابن الرومی کا شعر ہے ؎ اَمَّا ذُکَاءُ فَلَمْ تَصْفَرَّ إِذْ جَنَحَتْ إِلَّالِفُرْقَةِ ذَاكَ الْمَنْظَرِ الْحَسَنِ ترجمہ:- بہرحال آفتاب وہ پیلا نہیں ہوا، جب وہ غروب کی طرف مائل ہوا، مگر اس خوبصورت منظر کی جدائی کی وجہ سے۔ (۳) کسی شاعر نے مصر میں بارش کی کمی کے بارے میں کہا ہے ؎ مَا قَصُرَ الْغَیْثُ عَنْ مِصْرَ وَتُرْبَتِھهَا طَبْعًا وَلٰکِنْ تَعَدَّاکُمْ مِنَ الْخَجَلِ ترجمہ:- بارش کم نہیں ہوئی مصر اور اسکی مٹی سے فطری طور پر، لیکن وہ شرم سے تمہارے سے آگے بڑھ گئی ہے۔البحث (مثالوں کی وضاحت) پہلے شعر میں ابو العلاء مرثیہ کہہ رہا ہے، اور اس میں مبالغہ کررہا ہے کہ مرثی کا غم کائنات کی بہت ساری چیزوں کو شامل ہے، اسی لئے وہ دعوی کررہا ہے کہ چاند کی جھائیں( یعنی وہ سانولہ رنگ) جو اسکے چہرے پر ظاہر ہورہی ہیں وہ کسی فطری سبب سے پیدا نہیں هوئی ہیں، بلکہ وہ مرثی کے فراق میں تھپڑ مارنے سے پیدا ہوئی هیں۔