الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اور چوتھی مثال میں شاعر اپنے ممدوح لوگوں کی یہ صفت بیان کررہا ہے کہ وہ ممدوح جنگ کے وقت دلوں پر نیزے مارتے ہیں، تو شاعر نے قلوب کی تعبیر سے اعراض کرکے ایسی تعبیر اختیار کی جو بہت عمدہ اور دل میں پر اثر ہے اور وہ تعبیر ’’مجامع الاضغان‘‘ ہے، اس لئے کہ اس تعبیر سے قلوب ہی مفہوم ہوتے ہیں، کیونکہ کینہ، بغض اور حسد وغیرہ کے جمع ہونے کی جگہ دل ہی ہے۔ اور جب آپ ’’بنت عدنان، اور مجامع الاضغان‘‘ ان دونوں ترکیبوں میں غور کریںگے، تو ان دو میں سے ہر ایک میں ایسی ذات سے کنایہ کیا ہے جو اس کے معنی کے لئے لازم ہے، اسی لئے ان دونوں میں سے ہر ترکیب کنایہ عن الموصوف ہے ایسے ہی اس جیسی ہر ترکیب کنایہ عن الموصوف ہوگی۔ اور آخری مثال میں آپ نے مجدو کرم کو مخاطب کی طرف منسوب کرنا چاہا ہے مگر آپ نے ان دونوں چیزوں کی نسبت سے عدول کرکے ایسی چیز ممدوح کی طرف منسوب کی ہے جس کا ممدوح سے اتصال ہے، اور وہ کپڑے اور چادریں ہیں، اس جیسی مثال کو کنایہ عن النسبۃ کہا جاتا ہے، اور اس کنایہ کی نمایاں علامت یہ ہے کہ اس میں صفت یا مستلزم صفت کی صراحت کی جاتی ہے جیسے آپ نے دیکھا، جیسے’’فی ثوبیہه اَسَدٌ‘‘ اس کے کپڑوں میں شیر ہے، یہ شجاعت کی نسبت سے کنایہ کی مثال ہے۔ اگر آپ کنایہ کی گذشتہ مثالوں میں غور کریں گے، تو آپ محسوس کریں گے کہ ان میں بعض مثالیں ایسی ہیں جن میں حقیقی معنی مراد لینا جائز ہے جو صریح لفظ سے سمجھا جاتا ہے، اور بعض میں جائز نہیں ہے۔القواعد (قاعدے) (۲۶) کنایہ ایسا لفظ ہے جس کو بولکر اس کا لازم معنی مراد لیا جائے، ساتھ ہی اس کا اصلی معنی مراد لینا بھی جائز ہو۔ (۲۷) مکنی عنہ کے اعتبار سے کنایہ کی تین قسمیں ہیں، اس لئے کہ مکنی عنہ کبھی صفت ہوتی ہے، کبھی موصوف، اور کبھی نسبت ہوتی ہے، اول کو کنایہ عن الصفۃ، ثانی کو کنایہ عن الموصوف، اور ثالث کو کنایہ عن النسبۃ کہتے ہیں۔