الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
کے داروغوں کو بلائیں گے۔ (۸) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــــــــ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِیيْ نَعِیْمٍ ــــــــــــــ بلاشبہ نیک لوگ نعمت میں ہوں گے۔البحث (مثالوں کی وضاحت) آپ پہلے یہ جان چکے کہ استعارہ مجاز لغوی میں سے ہے، اور یہ کہ استعارہ وہ کلمہ ہے جو غیر موضوع لہ معنی میں مستعمل ہو، اصلی اور مجازی دونوں معنوں کے درمیان مشابہت کے علاقہ کی وجہ سے، اب ہماری آپ سے درخواست ہے کہ گذشتہ مثالوں میں غور وفکر کریں، اور یہ بھی دیکھیں کہ یہ مثالیں مجاز پر مشتمل ہیں؟ سب سے پہلے متنبی کے شعر میں کلمۂ ’’ أَیَادٍ‘‘، کیا تمہارا خیال ہے کہ اس سے حقیقی ہاتھ مراد ہے؟ نہیں بلکہ اس سے نعمتیں اور احسانات مراد ہیں، تو کلمہ ٔ ’’ایاد‘‘ (ہاتھ) یہاں مجاز ہے، لیکن کیا ایدی اور نعمتوں میں کوئی مشابہت نظر آرہی ہے؟ نہیں! تو دو معنوں میں کونسا علاقہ ہے، جب کہ گذشتہ اسباق میں یہ جان چکے ہیں کہ ہر مجاز کا علاقہ ہوتا ہے، اور یہ کہ عربی آدمی کسی کلمہ کو حقیقی اور مجازی دو معنوں کے درمیان کسی علاقہ اور مناسبت کے بغیر غیر موضوع لہ معنی میں استعمال نہیں کرتا ہے تو آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا ہاتھ ہی نعمت عطا کرتا ہے، تو ہاتھ نعمت کا سبب ہوا، تو ید اور نعمت دو معنوں میں علاقہ سببیت کا ہوا، اور یہ کلام عرب میں بہت عام ہے۔ پھر ارشاد باری تعالی ــــــــــــــ ’’وَيُنَزِّلُ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقاً‘‘ کو دیکھیں، روزی آسمان سے نہیں اترتی ہے، بلکہ آسمان سے جو چیز اترتی ہے وہ بارش ہے، اور اسی سے نبات وغذا پیدا ہوتی ہے جو ہماری روزی ہے، تو روزی مسبب اور بارش سبب ہوا، تو علاقہ مسببیت کا ہوا۔ پھر شعر میں’’عیون‘‘سے مراد جاسوس ہے، اور آسانی سے تم سمجھ لوگے کہ یہ استعمال مجازی ہے، دونوں میں علاقہ یہ ہے کہ عین (آنکھ) جاسوس کا جز ہے، اور آنکھ کا جاسوسیت میں بڑا دخل ہے تو جز بو ل كر کل مراد لیا تو علاقہ جزئیت کا ہوا۔ چوتھی مثال میں اللہ کے ارشاد ــــــــــــــ وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَاراً ــــــــــــــ میں آپ دیکھیں کہ انسان پوری انگلی کان میں نہیں ڈال سکتا ہے، تو آیت کریمہ میں ’’اصابع‘‘ بو ل كر انگلیوں کے پوروے مراد لئے، تو یہ مجاز ہوا جس کا علاقہ کلیت ہے۔