الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
قران کریم ایک انوکھی شان واسلوب والا کلام ہے، اسکی نظیر نہ پہلے تھی نہ بعد میں میسر آئی، ــــــــــــ سمجھنے والوں نے نظم وشعر سمجھا، دھوکہ لگا اور یہ الزام تراشی کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ شاعر ہیں، تو قران نے ’’وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ‘‘ کہہ کر برجستہ ان کی غلط فہمی دور کردی۔ علماء بلاغت نے اسلوب کی تین قسمیں لکھی ہیں، (۱)خطابی (۲)ادبی (۳)علمی ــــــــــــ تینوں کا دائر کار الگ الگ ہیں، جو انداز تقریر کا ہے وہ تحریر کا نہیں ہے، اور جو عام تحریر کا ہے وہ ادبی اور تحقیقی مقالے کا نہیں ہے، لیکن قران کریم کا یہ عجیب وغریب نرالا اسلوب ہے کہ تینوں کو ساتھ ساتھ لیکر چل رہا ہے، خطابت کا زور، ادب کی شگفتگی، اور علم وتحقیق کی متانت تینوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ادیبوں کے اپنے میدان ہوتے ہیں، جب کوئی ادیب اپنا میدان چھوڑ کر دوسرے میدان میں قدم رکھتا ہے تو اسکی تحریر کی آب وتاب ماند پڑجاتی ہے مگر یہ قران کا اعجاز ہے کہ اس نے ہر طرح کے مضامین کو اس انوکھے اور اچھوتے انداز میں پیش کیا کہ کسی جگہ اسکی فصاحت وبلاغت اور ادبیت میں جھول نظر نہیں آئی ہے۔ ایسی فصاحت وبلاغت والی معجز کتاب کا سمجھنا ہر کس وناکس کا کام نہیں ہے، اسکے لئے بیشمار علوم کی ضرورت ہے، جسکے بعد قران فہمی کا امکان ہوسکتا ہے۔ منجملہ ان علوم کے علم بلاغت ومعانی کا سمجھنا بھی ناگریز ہے، جسکے بغیر قران کریم کو کماحقہ سمجھنے کا حق ادا نہیں ہوسکتا ہے۔کچھ کتاب البلاغۃ الواضحہ کے بارے میں اسی لئے ابتدا ہی سےہمارے اکابر واسلاف نے اس فن کو نصاب کا جز بنایا ہے، اور باقاعدہ اس فن کی کتابیں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں، ’’البلاغۃ الواضحہ‘‘ اس فن کی مدارس عربیہ میں پڑھائی جانے والی اہم ترین کتاب ہے، یہ کتاب ماہر لغت وادب، انشاء پرداز دو مصری فضلاء ’’شیخ علی الجارم‘‘ اور ’’شیخ مصطفی امین‘‘ نے مصری وزارت تعلیم کے ایماء پر مرتب فرمائی ہے، جو نہایت ہی جامع ہے، اور اسکا انداز واسلوب اور طرز نگارش بھی سابقہ کتب سے منفرد وجداگانہ ہے، اسکی افادیت وسندیت کے لئے یہی کافی ہے کہ ازہر ہند دار العلوم دیوبند جیسی ایشیاء کی عظیم یونیورسٹی میں شعبۂ تکمیل ادب عربی میں داخل نصاب ہے۔