الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
البحث (مثالوں کی وضاحت) ادیب وبلیغ آدمی اپنی مافی الضمیر کو تین طریقوں سے تعبیر کرتا ہے، کبھی تو ایجاز واختصار کرتا ہے، اور کبھی طویل کلام لاتا ہے، اور کبھی بین بین اور متوسط عبارت لاتا ہے، جیسا مخاطب کی حالت اور خطاب کے مقام کا تقاضا ہوتا ہے اس اعتبار سے وہ کلام لاتا ہے، یہاں ہم ان تین طریقوں کو واضح کرنا چاہتے ہیں اور مساوات سے ابتدا کرتے ہیں، اسلئے کہ یہی اصل ہے اس پر باقی کو قیاس کرسکتے ہیں۔ گذشتہ مثالوں میں آپ غور کریں تو ان میں الفاظ معانی کے بقدر ہیں، حتی کہ اگر آپ ان میں ایک لفظ بھی بڑھائیں گے تویہ زیادتی بیکار ہوگی، اور اگر کسی لفظ کو آپ ساقط کردیں تو یہ کلام میں خلل پیدا کرے گا، پس ہر مثال میں الفاظ معانی کے برابر سرابر ہیں، اور کلام کو اس انداز سے ادا کرنے کا نام ’’مساواۃ‘‘ ہے۔القاعدہ (قاعدہ) (۶۵) مساوات یہ ہے کہ معانی الفاظ کے بقدر ہوں اور الفاظ معانی کے بقدر ہوں، کوئی ایک دوسرے پر زیادہ نہ ہو۔۲ - الایجاز (۱) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ـــــــــــــ أَلَالَہهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ (اعراف ۵۴) سنو تخلیق بھی اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا چلتا ہے۔ (۲) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے اَلضَّعِیْفُ أَمِیْرُ الرَّ کْبِ ـــــــــــــ کمزور آدمی قافلہ کا امیر ہے۔ (۳) ایک دیہاتی سے پوچھا گیا جو بہت سا مال (اونٹ) ہانک کرلے جارہا تھا ـــــــــــــ ’’لِمَنْ هٰھذَا الْمَالُ؟‘‘ یہ مال کس کا ہے؟ اس نے جواب دیا ’’لِلّٰہهِ فِی یَدِی‘‘ یہ اللہ کا ہے میرے ہاتھ میں۔ (۴) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ـــــــــــــ وَجَاء رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفّاً صَفّاً(فجر ۲۲) تیرا رب آئے گا اور فرشتے صف در صف آئیں گے۔ (۵) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ـــــــــــــ ؎ق وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ بَلْ عَجِبُوْا أَنْ جَاءهُمْ مُنذِرٌ مِّنْهُمْ (ق ۲) قاف، قران مجید کی قسم! بلکہ ان کو اس پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہیں میں سے ڈرانے والا آیا۔