الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اَلضَّارِبِیْنَ بِکُلِّ أَبْیَضَ مِخْذَمِ وَالطَّاعِنِیْنَ مَجَامِعَ الْأَضْغَانِ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر کاٹنے والی سفید تلوار سے مارنے والے ہیں، اور کینوں کے جمع ہونے کی جگہوں پر نیزے مارنے والے ہیں۔ (۵) اَلْمَجْدُ بَیْنَ ثَوْبَیْكَ وَالْکَرَمُ مِلْئُ بُرْدَیْكَ شرافت آپ کے کپڑوں کے درمیان رہتی ہے، اور سخاوت آپ کی چادروں میں گھری ہوئی ہے۔البحث (مثالوں کی وضاحت) ’’مَھهْوَی الْقُرَطَ ‘‘کان کی لو سے لیکر کندھے تک کی دوری کا نام ہے، جب یہ مسافت دور ہوگی تو لازم آئے گا کہ گردن لمبی ہوگی گویا کہ عربی اس کو بجائے یہ کہنے کے ’’کہ یہ عورت لمبی گردن والی ہے‘‘ اس نے ہم کو ایسی نئی تعبیر دی جو اس عورت کے اس صفت سے متصف ہونے کا فائدہ دے رہی ہے۔ اور دوسری مثال میں حضرت خنساء نے اپنے بھائی کی یہ صفت بیان کی کہ ’’وہ لمبے پرتلہ والا، بلند ستون اور زیادہ راکھ والا ہے، اس کی مراد یہ ہے کہ ان جملوں سے دلالت ہو کہ اس کا بھائی بہادر، اپنی قوم میں بڑی عظمت والا اور بڑا سخی ہے، پس اس نے ان صفات کی صراحت سے اعراض کرکے ان کی طرف اشارہ کیا اور ان صفات سے كنا یہ کیا کیونکہ تلوار کے پرتلے کے لمبا ہونے سے تلوار والے کا لمبا ہونا لازم ہے، اور عام طور پر جسم کے لمبا ہونے سے بہادری لازم ہے اور اس کے بلند ستون والا ہونے سے اپنی قوم وخاندان میں بڑے مرتبہ والا ہونا لازم ہے، جیسے راکھ کی زیادتی سے لازم ہے لکڑیاں زیادہ جلنا، پھر کھانا زیادہ بننا، پھر کھانا زیادہ ہوگا تو مہمانوں کی کثرت، پھر مہمانوں کی کثرت ہے تو اس کا سخی ہونا لازم ہے، پس گذشتہ ترکیبوں ’’ بَعِیْدَۃةُ مَهھْوَی الْقُرَطِ، طَوِیْلُ النَّجَادِ، رَفِیْعُ الْعِمَادِ اَوَ کَثِیْرُ الرَّمَادِ ‘‘ میں سے ہر ایک میں ایسی صفت کا کنایہ کیا گیا ہے، جو اس کے معنی کے لئے لازم ہے، تو اس جیسی ہر ترکیب کو کنایہ عن الصفۃ کہا جاتا ہے۔ اور تیسری مثال میں شاعر یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ اے مدرسہ! عربی زبان نے تیرے اندر ایسی جگہ پائی ہے جس نے اس کو دیہات والا دور یاد دلایا ہے، تو شاعر نے عربی زبان کی صراحت سے ایسی ترکیب کی طرف عدول کیا ہے جو عربی زبان کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کو عربی زبان سے کنایہ سمجھا جاتا ہے، وہ ترکیب ’’بنت عدنان‘‘ ہے۔