الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
ــــــــــــــ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بیشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (۲) إِنَّ بِرَّ الْوَالِدَیْنِ لَوَاجِبٌ ــــــــــــــ بیشک ماں باپ کی فرماں برداری واجب ہے، (یہ بات آپ اس سے کہیں جو ماں باپ کی اطاعت نہیں کرتا ہے)۔ (۳) إِنَّ اللّٰہهَ لَمُطَّلِعٌ عَلٰی أَفْعَالِ الْعِبَادِ ــــــــــــــ بیشک اللہ تعالی بندوں کے کاموں سے باخبر ہے (یہ جملہ آپ اس سے کہیں جو لوگوں پر ناحق ظلم کرتا ہو)۔ (۴)اَللّٰہهُ مَوْجُوْدٌ ــــــــــــــ اللہ تعالی موجود ہے ــــــــــــــ (یہ بات آپ اس سے کہیں جو معبود کے وجود کا منکر ہو)۔الاجابہ (نمونے کا حل) (۱) پہلی مثال میں ظاہر کا تقاضا یہ تھا کہ خبر تاکید سے خالی آتی، کیونکہ مخاطب حکم سے خالی الذھن ہے، لیکن چونکہ کلام میں پہلے جملہ’’اتقواربکم‘‘ موجود ہے جو حکم کی نوعیت بتلاتا ہے، (کہ جب ڈرنے کا کہا تو ضرور کوئی بات ہے) تو مخاطب حکم کا منتظر ہوگیا، تو خالی الذھن مخاطب کو سائل متردد کے درجہ میں اتار لیا گیا اور کلام کو مقتضائے ظاہر کے خلاف تاکید کے ساتھ پیش کیا گیا۔ (۲) مقتضائے ظاہر یہ تھا کہ خبر بغیر تاکید کے لائی جاتی، کیونکہ یہاں مخاطب حکم کا یعنی والدین کے ساتھ اچھے سلوک کے واجب ہونے کا منکر نہیں ہے اور نہ اس کو اس میں تردد ہے، لیکن اس کی نافرمانی انکار کی علامتوں میں سے ہے، اس لئے مخاطب کو منکر کے درجہ میں اتار لیا گیا۔ (۳) یہاں بھی مقتضائے ظاہر خبر کو بغیر تاکید کے لانا تھا، کیونکہ مخاطب نہ حکم کا منکر ہے نہ متردد ہے لیکن اس کو منکر کے درجہ میں اتار کر خبر اس کے سامنے تاکید کے ساتھ لائی گئی، (اس کو منکر کے درجہ میں اتارا) اس پر انکار کی علامتوں کے ظاہر ہونے کی وجہ سے، اور وہ اس کا بندوں پر ناحق ظلم کرنا ہے۔ (۴) یہاں مقتضائے ظاہر تاکید لاناتھا، کیونکہ مخاطب اللہ کے وجود کا انکار کرتا ہے، لیکن جب اس کے سامنے ایسے دلائل وشواہد موجود ہیں کہ اگر وہ ان میں غور وفکر کریں تو انکار چھوڑدیں ، تو اس لئے اس کو غیر منکر کی طرح قرار دیا، اور اس کے سامنے خبر مقتضائے ظاہر کے خلاف تاکید سے خالی پیش کی گئی۔