الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اوقات بتانے کا ذریعہ ہیں۔ (۲) ابن حجاج نے کہا ہے ؎ ثَقَّلَتُ إِذْ أَتَیْتُ مِرَارًا قُلْتُ ثَقَّلْتَ کَاهِھلِي بِالْأیَادِي قَالَ طَوَّلْتُ قُلْتُ أَوْلَیْتَ طَوْلًا قَالَ أَبْرَمْتُ قُلْتُ حَبْلَ وِدَادِي ترجمہ:- اس نے کہا کہ میں نے بوجھل کردیا اسلئے کہ میں بار بار آیا، تو میں نے کہا کہ تو نے احسانات کے ذریعہ میرے کاندھے کو بوجھل کردیا ــــــــــــ اس نے کہا کہ میں نے لمبا قیام کیا تو میں نے کہا کہ آپ نے نوازش کی بارش کردی اس نے کہا کہ میں نے اکتادیا تو میں نے کہا میری محبت کی رسی کو مضبوط کردیا۔البحث (مثالوں کی وضاحت) کبھی کوئی انسان آپ کو مخاطب کرتا ہے یا کوئی سائل آپ سے کوئی بات پوچھتا ہے تو آپ موضوعِ گفتگو میں گھسنے سے اعراض یا سوال کا جواب دینے سے اعراض کی طرف اپنے نفس کا میلان محسوس کرتے ہیں بہت سے مقاصد کی وجہ سے۔ ان مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ سائل صحیح طریقہ پر جواب سمجھنے سے عاجز ہے، اور اسکے لئے بہتر یہی ہے کہ اس جواب سے صرف نظر کرکے اسکے لئے مفید اور نفع بخش چیز کی طرف غور کیا جائے، ــــــــــــ ایک مقصد یہ ہے کہ آپ کسی رائے میں اپنے مخاطب کی مخالفت کررہے ہیں، اور آپ اپنی رائے سے اسکو جواب دینا نہیں چاهتے تو آپ اس حالت میں اور اس جیسی حالت میں تھوڑی مہارت وخوش اسلوبی کے ساتھ کلام کو اس موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف پھیر دیتے ہیں جسکو آپ مناسب اور بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ پہلی مثال دیکھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپؐ سے چاند کے بارے میں پوچھا ہے، کہ یہ چاند چھوٹی شکل میں کیوں ظاہر ہوتا ہے، پھر بڑھتا ہے یہاں تک کہ اسکی روشنی کامل ہوجاتی ہے، پھر وہ گھٹتا رہتا ہے یہاں تک کہ نظر بھی نہیں آتا ہے، اور یہ علم فلکیات کا ایسا مسئلہ ہے جسکے سمجھنے میں باریک اور طویل تحقیق کی ضرورت ہے، تو قران کریم نے ان کو اس سے پھیر دیا یہ بیان کرکے کہ چاند معاملات اور عبادات میں اوقات متعین کرنے کے ذرائع اوراسباب ہیں، ــــــــــــ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اسکا سوال کریں،