الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اس کے بعد پانچویں مثال میں آپ دیکھیں ، اللہ تعالی وحدانیت کے منکرین سے خطاب کررہے ہیں، لیکن خبر تاکید سے خالی پیش کررہے ہیں جیسے غیر منکرین کے سامنے پیش کی جاتی ہے، پس ’’ إِلٰھهُکُمْ إِلٰہهٌ وَاحِدٌ‘‘ کہا بغیر تاکید کے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان منکرین وحدانیت کے سامنے ایسے قطعی اور روشن دلائل وشواہد موجود ہیں کہ اگر وہ ان میں غور وفکر کریں تو مکمل اطمینان وتشفی ہوجائے، اسی لئے اللہ تعالی نے ان کے اس انکار کو بے وزن قرار دیا اور ان سے خطاب کرنے میں اس انکار کا کوئی اعتبار نہیں کیا۔ ایسے ہی آخری مثال میں بھی مخاطب کے سامنے جہالت کے مضر ہونے پر ایسے دلائل موجود ہیں کہ اگر وہ ان میں غور وفکر کرے تو اپنے انکار کو چھوڑدے، اسی لئے اس کے سامنے خبر تاکید سے خالی پیش کی گئی۔القواعد (قاعدے) (۳۴) جب خالی الذھن مخاطب کے سامنے خبر تاکید سے خالی پیش کی جائے، اور سائل متردد کے سامنے خبر کو استحساناً تاکید کے ساتھ اور منکر کے سامنے خبر کو وجوباً تاکید کے ساتھ پیش کی جائے تو یہ خبر مقتضائے ظاہر کے مطابق ہوگی۔ (۳۵) کبھی خبر مقتضائے ظاہر کے خلاف لائی جاتی ہے ان وجوہات کی وجہ سے جن کو متکلم سمجھتا ہے، جن میں سے چند یہ ہیں۔ (الف) پہلا یہ کہ خالی الذھن کو سائل متردد کے درجہ میں اتار لیا جائے جب کہ کلام میں پہلے کوئی بات ایسی آئی ہو جو خبر کے حکم کی طرف اشارہ کررہی ہو۔ (ب) دوسرا یہ کہ غیر منکر کو اس پر انکار کی علامتیں ظاہر ہونے کی وجہ سے منکر کے درجہ میں اتار لیا جائے۔ (ج) تیسرا یہ کہ منکر کو غیر منکر کے درجہ میں اتار لیا جائے جب کہ اس کے سامنے ایسے دلائل وشواہد موجود ہوں کہ اگر وہ ان میں غور کرے تو اپنا انکار چھوڑدے۔النموذج (نمونے کی مثالیں) آنے والی مثالوں میں خبر کے مقتضائے ظاہر کے خلاف ہونے کی وجہ بیان کریں۔ (۱) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ــــــــــــــ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ (الحج - ۱)