الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
نہیں ، اس لیے كہ مہینہ كا ابتدائی چاند جب ظاہر ہوكر بڑھنے لگتا ہے تو لوگ اس كے كامل ہونے كی توقع كرتے ہیں اور یقین كرتے ہیں كہ وہ بدر كامل ہوجائے گااشعار میں تشبیه : ان دو اشعار میں تشبیہ ضمنی ہے اس لیے كہ شاعر فضل وشرافت كے دلائل كی حالت كو جوان دو بچوں میں ظاہر تھی ، اور جس كا بڑھنا اور راسخ طبیعت اور قوی اخلاق بننا مقدر تھا اگر زمانہ اس كو باقی ركھتا ـــــــــــــــتشبیہ دے رہا ہے چاند كی حالت سے جو چھوٹا ظاہر ہوتا ہے ، پس دیكھنے والا اس كو دیكھ كریقین كرتا ہے كہ یہ تام اور بدر كامل ہوجائے گا ۔۵ - اغراض التشبیہ الامثلہ (مثالیں) (۱) بحتری نے کہا ہے ؎ دَانٍ عَلٰی أَیْدِیْ الْعُفَاةِ وَشَاسِعٌ عَنْ كُلِّ نِدٍّ فی النَّدٰی وَضَرِیْبِ كَالْبَدْرِ اَفْرَطَ فی الْعُلُوِّ وَضَوْءُهُ لِلْعُصْبَةِ السَّارِیْنَ جِدُّ قَرِیْبِ وہ ضرورت مندوں کے ہاتھوں سے بہت قریب ہے، اور سخاوت میں ہر ہمسر وہم پلہ سے بہت دور ہے، جیسے چاند بلندی میں بہت دور ہے، اور اس کی روشنی رات میں چلنے والی جماعت سے بہت قریب ہے۔ (۲) اور نابغہ ذبیانی نے کہا ہے ؎ فَإنَّكَ شَمْسٌ وَالْمُلُوْكَ كَوَاكِبُ إِذَا طَلَعَتْ لَمْ یَبْدُ مِنْہهُنَّ كَوْكَبُ پس بیشک آپ سورج ہیں، اور دوسرے بادشاہ ستارے ہیں، جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان ستاروں میں سے کوئی بھی ظاہر نہیں ہوتا ہے۔ (۳) اور متنبی نے شیر کی تعریف میں کہا ہے ؎ مَا قُوْبِلَتْ عَیْنَاهُ إِلَّا ظُنَّتَا تَحْتَ الدُّجٰی نَارَ الْفَرِیْقِ حُلُوْلًا شیر کی دونوں آنکھوں کا جب بھی سامنا ہوتا ہے تو یہ خیال ہوتا ہے کہ اندھیری رات میں کسی مقیم جماعت کی آگ ہے۔