الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
بیٹھے ہوئے تھے کہ جہیزہ نام کی ایک لڑکی نے آکر خبر دی کہ مقتول کے اولیا ءقاتل پر قابو پاچکے ہیں، اور انہوں نے اس کو قتل کردیا، تو اس موقع پر کسی نے کہا ’’قَطَعَتْ جَہهِیْزَۃةُ قَوْلَ کُلِّ خَطِیْبٍ‘‘ کہ جہیزہ نے ہرکہنے والے کی بات ختم کردی ــــــــــــــ پھر یہ قول اہل عرب کے لئے ضرب المثل بن گیا، اور ہر اس جگہ کے لئے استعمال ہونے لگا جہاں کوئی فیصلہ کن بات کہی جائے ــــــــــــــ اوپر کی تینوں مثالوں میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ کلام اپنے غیر حقیقی معنی میں مستعمل ہے، اور حقیقی اور مجازی معنی کے درمیان علاقہ مشابہت کا ہے اور قرینہ حالیہ ہے، اور اس قسم کی ہر ترکیب کانام استعام تمثیلیہ ہے۔القاعدہ (قاعدہ) (۲۱) استعارہ تمثیلیہ ہر وہ ترکیب ہے جو غیر موضوع لہ معنی میں مستعمل هو مشابہت کے علاقہ کی وجہ سے اور ساتھ ہی حقیقی معنی مراد لینے سے مانع قرینہ بھی ہو۔النموذج (نمونے کی مثالیں) (۱) عرب کی کہاوتوں میں سے ہے۔ قَبْلَ الرِّمَاءِ تَمْلَأُ الْکَنَائِنُ -- تیر اندازی سے پہلے ترکش بھرے ہونے چاہئیں (یہ کہاوت اس شخص کے لئے تو کہیگا جو اپنے پاس مال کی فراہمی سے پہلے گھر بنانا چاہتا ہے)۔ (۲) أَنْتَ تَرْقُمُ عَلَی الْمَاءِ -- تم پانی پر نقش کررہے ہو (یہ کہاوت آپ اس سے کہیں گے جو ایسے کام پر مصر ہو جو انتہائی کوشش کے باوجود ممکن الحصول نہ ہو)۔الاجابۃ (نمونے کا حل) (۱) پہلی مثال میں اس شخص کی حالت کو جو مال تیار کرنے سے پہلے گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے، اس شخص کی حالت سے تشبیہ دی گئی ہے، جو جنگ کا ارادہ رکھتا ہو اور اس کے ترکش میں تیر نہ ہوں، جامع یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک معاملہ کی تیاری کرنے سے پہلے اس میں جلد بازی کررہا ہے، پھر مشبہ بہ کی حالت پر دلالت کرنے والی ترکیب کو مشبہ کے لئے استعارہ تمثیلیہ کے طور پر مستعار لیا گیا، اور قرینہ حالیہ ہے۔