الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
نسبت جاننا چاہتا ہے، ــــــــ پس چھٹی مثال میں مثلاً متکلم کو تردد ہے کہ زنگ کا ثبوت سونے کے لئے ہے یا اس کی نفی ہے، اسی لئے وہ اس نسبت کے جاننے کو طلب کررہا ہے، اب یہاں اگر اثبات مراد ہے تو جواب ’’نعم‘‘سے ہوگا، اور نفی مقصود ہے تو’’لا‘‘سے ہوگا، ــــــــ اور یہاں تمام مثالوں میں آپ غور کریں گے تو مسئول عنہ یعنی نسبت کے لئے کوئی مقابل نہیں پائیں گے۔ گذشتہ مثالوں سے معلوم ہورہا ہے کہ’’ ہمزہ‘‘ کے دو استعمال ہیں، پس کبھی تو اس سے مفرد کی معرفت مطلوب ہوتی ہے اور کبھی اس سے نسبت کی معرفت مطلوب ہوتی ہے، مفرد کی معرفت کا نام’’ تصور‘‘ ہے، اور نسبت کی معرفت کا نام’’ تصدیق‘‘ ہے۔ اس کے بعد’’ ج ‘‘ کی مثالوں کے خانے میں دیکھیں جہاں ادات استفہام ’’هھل‘‘ ہے، تو آپ کو محسوس ہوگا کہ متکلم ان تمام مثالوں میں کسی مفرد چیز کی معرفت میں تردد نہیں کررہا ہے، بلکہ اس کو نسبت کی معرفت میں تردد ہے، کہ کیا یہ نسبت مثبت ہے یا منفی ہے، پس وہ اس کے بارے میں پوچھ رہا ہے، ــــــــ اسی لئے اگر اثبات مراد ہے تو جواب’’نعم‘‘سے ہوگا ، اور اگر نفی مقصود ہے تو ’’لا‘‘ سے ہوگا۔ اگر آپ ان تمام مثالوں میں غور کریں گے جن میں ’’هھل‘‘ کے ذریعہ سوال کیا جارہا ہے، تو آپ محسوس کریں گے کہ مقصود صرف نسبت کی معرفت ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، پس ھل اس وقت تصدیق کو طلب کرنے کے لئے ہی ہوگا، اور اس کے ساتھ مقابل کا ذکر کرنا ممتنع ہے۔القواعد (قاعدے) (۴۳) استفہام: پہلے سے کسی نامعلوم چیز کے جاننے کو طلب کرنا ہے، اور استفہام کے ادوات بہت ہیں، جن میں سے ہمزہ ، اور ھل ہیں۔ (۴۴) ہمزہ کے ذریعہ دو چیزوں میں سے کسی ایک کو طلب کیا جاتا ہے۔ (الف) تصور: وہ مفرد کا ادراک کرنا ہے، اور اس حالت میں ہمزہ کے بعد مسئول عنہ آتا ہے، اور اکثر أم کے بعد اس کا مقابل بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ (ب) تصدیق: اور وہ نسبت کا ادراک کرنا ہے، اور اس حالت میں مقابل کا ذکر ممتنع ہے۔ (۴۵) ھل کے ذریعہ سے صرف تصدیق کو طلب کیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ مقابل کا ذکر ممتنع ہے۔