الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
البحث (مثالوں کی وضاحت) آپ کو گذشتہ مثالوں میں کوئی تردد نہیں ہوگا كه یہ مدح کا فائدہ دے رہی ہیں، لیکن یہ عجیب اسلوب میں پیش کی گئی ہیں جس سے آپ مانوس نہیں ہیں، اسی لئے ہم آپ کے سامنے اسکی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ پہلی مثال میں ابن الرومی نے اپنے کلام کو شروع کیا ہے اپنے ممدوح سے تمام عیوب کی نفی کے ذریعہ ، پھر اسکے بعد حرفِ استثنا ’’سوی‘‘ لایا ہے، جس سے سامع کے ذہن میں یہ وہم سبقت کررہا ہے کہ ممدوح میں کوئی عیب ہے، اور یہ کہ ابن الرومی جرأت کے ساتھ اس عیب کی ممدوح میں صراحت کرے گا، لیکن دیر نہیں ہوئی بلکہ فورا ہی سامع نے حرفِ استثناء کے بعد مدح کی صفت پائی، تو اس اسلوب نے اسکو حیرت میں ڈالدیا، اور اس نے محسوس کیا کہ ابن الرومی اسکو دھوکہ دے رہا ہے، اس نے تو کوئی عیب ذکر نہیں کیا، بلکہ مذمت کا وہم پیدا کرنے کی شکل میں اس نے پہلی ہی مدح کو اور مؤکد کیا، اور یہی بات دوسری مثال میں بھی کہی جائے گی۔ اسکے بعد تیسری مثال میں آپ دیکھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو ایک قابلِ مدح صفت کے ساتھ متصف کیا ہے، وہ یہ کہ آپؐ عربوں میں سب سے فصیح ہیں، لیکن آپ اسکے بعد حرفِ استثناء لائے، تو سامع حیرت میں پڑ کر سوچنے لگا کہ آپؐ اسکے بعد کوئی ناپسندیدہ صفت لائیں گے، لیکن جلد ہی اسکے دل کو سکون ہوگیا جب اس نے حرفِ استثناء کے بعد بھی قابل مدح صفت پائی، اور وہ صفت یہ ہے کہ آپ قریشی ہیں، اور قریشی بلا اختلاف تمام عربوں میں سب سے زیادہ فصیح ہیں، پس یہ مدح والی صفت پہلی مدح کی تاکید ہے ایسے انداز میں جسکو لوگ صفت ذم میں سننے کے عادی ہیں، ــــــــــــــ یہی بات آخری مثال میں کہی جائے گی۔ ان تمام مثالوں میں اور ان جیسی مثالوں میں جو اسلوب وانداز ہے اسکا نام ہے ’’تاکید المدح بما یشبہه الذم‘‘۔ اور یہاں ایک اسلوب اور ہے جسکا نام ’’تاکید الذم بما یشبہه المدح‘‘ہے، اور گذشتہ اسلوب کی طرح اسکی بھی دوصورتیں ہیں، پہلی صورت کی مثال جیسے ’’لَاجَمَالَ فِي الْخُطْبَةِ إِلَّا أَنَّھهَا طَوِیْلَةٌ فِی غَیْرِ فَائِدَۃةٍ‘‘ خطبہ اور تقریر میں کوئی حسن وجمال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بے فائدہ طویل ہے، ــــــــــــــ اور دوسری صورت کی مثال ’’اَلْقَوْمُ شِحَاحٌ إِلَّا أَنَّھهُمْ جُبَنَاءُ‘‘ قوم بخیل ہے مگر یہ کہ وہ بزدل ہے۔