الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
طرف نسبت کرتے ہوئے، اور متکلم کا یہ مقصد نہیں ہے کہ صفتِ سخاوت علی کے علاوہ تمام افراد انسان میں نہیں پائی جارہی ہے، -- یہی حال دوسری مثال کا ہے، اسی لئے ان دو مثالوں میں جو قصر ہے اسکا نام’’ قصرِ اضافی ‘‘ ہے، ایسے ہی ہر وہ قصر جس میں تخصیص کسی دوسری چیز کی طرف نسبت کرتے ہوئے ہو تو اسکو’’ قصر اضافی‘‘ کہا جائے گا۔القاعدہ (قاعدہ) (۶۱) قصر کی حقیقت وواقع کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں۔ (الف) قصر حقیقی:- یہ ہے کہ مقصور مقصور علیہ کے ساتھ خاص ہو حقیقت وواقع کے اعتبار سے، اسطرح کہ مقصور مقصور علیہ سے اسکے علاوہ کی طرف بالکل تجاوز نہ کرے۔ (ب) قصر اضافی:- یہ ہے کہ جس میں اختصاص کسی معین چیز کی طرف نسبت کرتے ہوئے ہو۔النموذج (۱) (نمونے کی مثالیں) قصر، اسکے طریقے اور طرفین کی تعیین میں (۱) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ؎ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر ۲۸) ـــــــــ اللہ تعالی سے اسکے بندوں میں سے صرف علماء ہی ڈرتے ہیں۔ (۲) اللہ تعالی کا ارشاد ہے ؎ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (آل عمران ۱۴۴) ـــــــــــمحمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے رسول ہی ہیں، تحقیق آپ سے پہلے بہت رسول گذرچکے ہیں، پس کیا اگر آپ کی وفات ہوجائے یا شہید ہوجائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے۔ (۳) لبید کا شعر ہے ؎ وَمَا الْمَرْءُ إِلَّا کَالْھهِلَالِ وَضَوْءِهِ۔ یُوَافِيْ تَمَامَ الشَّهْھرِ ثُمَّ یَغِیْبُ ترجمہ:- آدمی صرف پہلی رات کے چاند کی طرح ہے، جسکی روشنی پورے مہینہ مکمل ہوتی رہتی ہے پھر وہ غائب ہوجاتا ہے۔ (۴) ابن الرومی کا مدح میں شعر ہے ؎ أَمْوَالُہهُ فِی رِقَابِ النَّاسِ مِنْ مِنَنٍ لَافِي الْخَزَائِنِ مِنْ عَیْنٍ وَمِنْ نَشَبٍ