الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
ہے یہ مقبول نہیں ہے، کیونکہ عربوں کے یہاں یہ بات مشہور ہے کہ گھوڑے کی پیشانی کے بال اگر اس کی آنکھوں کو چھپادے تو ایسا گھوڑا نہ اصیل اور بہتر ہوتا ہے اور نہ سبک اور تیز رفتار ہوتا ہے، تو شاعر نے ایک معنی کی تعبیر کے لئے کلمات کے انتخاب میں غلطی کردی تو تعبیر میں خلل اور اضطراب پیدا ہوگیا پس یہ کلام تعقیدِ معنوی کے سبب غیر فصیح ہوگیا۔ تعقید معنوی کی تیسری مثال:- ابو تمام کا یہ شعر ہے ؎ جَذَبْتُ نَدَاهُ غَدْوَۃةَ السَّبْتِ جَذْبَةً فَخَرَّ صَرِیْعًا بَیْنَ أَیْدِی الْقَصَائِدِ ترجمہ:- میں نے سنیچر کی صبح میں اس کی سخاوت کو اس طرح جذب کرلیا کہ وہ میرے قصیدوں کے سامنے بے اختیار گر پڑا، -- اس میں شاعر پہلے مصرعہ پر رک جاتا تو صحیح تھا، کیونکہ پہلا مصرعہ صحیح اور فصیح ہے، لیکن دوسرے مصرعہ نے اس شعر کو غیر فصیح بنادیا، کیونکہ دوسرے مصرعہ میں شاعر نے کہا کہ ’’اس کی سخاوت میرے قصیدوں کے سامنے بے اختیار زمین پر گر پڑی‘‘ یہ نہایت ہی قبیح بات ہے، تو یہاں بھی ایک معنی کی تعبیر میں کلمات کے انتخاب میں شاعر سے غلطی ہوگئی پس کلام تعقید معنوی کے سبب غیر فصیح ہوگیا۔بلاغت کا بیان اما البلاغۃ فھی تادیۃ المعنی الجلیل سے واروعھا جمالاً بلاغت کی تعریف:-بلاغت کہتے ہیں : کسی اہم مفہوم کو واضح طریقہ پر ایسی صحیح اور فصیح عبارت سے ادا کرنا جس کا مخاطب کے دل میں زبردست اثر ہو، اور ساتھ ہی وہ ہر کلام مقتضیٔ حال کے مطابق ہو یعنی جس مقام اور جگہ میں وہ کلام کیا جارہا ہے یا جن لوگوں سے کلام کیا جارہا ہے وہ کلام ان کے مطابق ہو۔ چنانچہ بلاغت دیگر فنون کی طرح ایک فن ہے، جس کے ذریعہ فطری صلاحیت میں جِلَااور حسن وجمال کے ادراک میں باریک بینی کا قصد کیا جاتا ہے یعنی اس کو حاصل کیا جاتا ہے، اور اسالیب کی مختلف قسموں کے درمیان پوشیدہ فَرْقوں میں تمیز پیدا ہوتی ہے، اور اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ فنی ذوق پیدا کرنے میں اور خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں مشق کا بہت بڑا دخل ہے، پس بلاغت کے طالب کے لئے اس طرف توجہ دینے کے ساتھ ضروری ہے ادبی شہ پاروں کو پڑھنا، ادب کے چشمۂ فیاض سے سیراب ہونا، اور ادبی آثار اور اقوال کا