الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۵) ’’جبالا‘‘ میں استعارہ تصریحیہ اصلیہ ہے، جس میں موٹی بھاری کشتیوں کو پہاڑوں سے تشبیہ دی ہے، او ر’’تمخر العباب‘‘ قرینہ ہے، اور مطلقہ ہے کیونکہ مشبہ اور مشبہ بہ کا کوئی مناسب مذکور نہیں ہے۔ (۶)’’خبر‘‘میں استعارہ مکنیہ ہے، خبر کو پرندے سے تشبیہ دی ہے، اور مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کا لازم ’’طار‘‘ ذکر کردیا ہے، اور ’’فی المدینةۃ‘‘ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں کی صلاحیت ہے، اس لئے یہ استعارہ مطلقہ ہوگا۔ (۷) ’’الطیر‘‘ میں استعارہ مکنیہ ہے، جس میں پرندے کو انسان سے تشبیہ دی ہے، اور مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کے لازم ’’غنی‘‘ سے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور ’’انشودتہه‘‘ کے ذکر میں ترشیح ہے، اور ’’فوق الاغصان‘‘ کے ذکر میں تجرید ہے اسی لئے استعارہ مطلقہ ہے۔ (۸)’’شمس‘‘میں استعارہ تصریحیہ اصلیہ ہے، اس میں حسین عورت کو شمس سے تشبیہ دی ہے، پھر مشبہ بہ کو مشبہ کے لئے مستعار لیا گیا ہے، اور قرینہ ’’من خدرهھا‘‘ ہے، اور استعارہ مطلقہ ہے، مشبہ یا مشبہ بہ کے مناسب کے ذکر سے خالی ہونے کی وجہ سے۔ (۹)’’دهھر‘‘میں استعارہ مکنیہ ہے، اس میں زمانہ کو قائد وكمانڈرسے تشبیہ دی ہے، اور مشبہ بہ کو حذف کرکے اس کے لازم ’’یھهجم‘‘ سے اس کی طرف اشارہ کیا گیا، اور ’’بِجَیْش‘‘ کے ذکر میں ترشیح ہے، اور ’’من ایامہه ولیالیہه‘‘کے ذکر میں تجرید ہے اسی لئے یہ استعارہ مطلقہ ہے۔التمرین - ۴ آنے والے استعارات کی اقسام اور ان میں موجود ترشیح، تجرید یا اطلاق کو بیان کریں۔ (۱) متنبی شاعر کہتا ہے ؎ اگر دوست سفر کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے رخسار میں بارش ہوتی ہے، جس سے بہت سے رخساروں پر قحط میں زیادتی ہوجاتی ہے۔ (۲) تہامی شاعر اپنے حاسدین سے معذرت کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ میرا کوئی قصور نہیں میں نے اپنے فضائل چھپانے کی بہت کوشش کی، گویا میں دن کے چہرے کو برقعہ پہنا رہا ہوں۔ (۳) ابو تمام شاعر ممدوح کے بارے میں کہتا ہے ؎